مہنگائی 0

بجٹ تجاویز میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف ممکن بنانے سے ہی معیشت بہتری کی طرف جاسکتی ہے، بلاشبہ ٹیکسوں کی بھرمار سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔

بجٹ تجاویز میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف ممکن بنانے سے ہی معیشت بہتری کی طرف جاسکتی ہے، بلاشبہ ٹیکسوں کی بھرمار سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔

18ہزار ارب روپے کا وفاقی بجٹ آج بدھ کے روز قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 سے15فیصد اضافہ متوقع ہے جبکہ بجٹ میں دفاع کیلیے 2100 ارب رکھے گئے ہیں۔بجٹ میں سود اورقرضوں کی ادائیگیوں کا تخمینہ 9.5 ٹریلین روپے لگایا گیا ہے نان ٹیکس ریونیوکا ابتدائی تخمینہ ہے۔ سیلز ٹیکس استثنی ختم ہونے کے ساتھ اضافی ٹیکسزکا بوجھ ڈالا جائے گا۔ بیشتر اشیا پرسیلزٹیکس کی تجاویز، ود ہولڈنگ ٹیکس اورکسٹم ڈیوٹیزمیں اضافے کا امکان ہے۔ٹیکس وصولیوں کا ہدف 12.9 ٹریلین روپے مقررکیے جانے کی تجویز ہے، دوہزارارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کرنے کیلئے پٹرولیم مصنوعات پر5 فیصد سیلزٹیکس،جی ایس ٹی ایک فیصد اضافہ اورغیرضروری ٹیکس چھوٹ ختم کرنے سمیت دیگرنئے ٹیکسزعائد کیے جانے کا امکان ہے۔پیٹرولیم لیوی کی مد میں 1050 ارب روپے سے زائد وصول کرنے کا ہدف تجویزکیا گیا بجٹ میں تمام غیرضروری سیلزٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویزسے ساڑھے پانچ سوارب روپے کی اضافی آمدن متوقع ہے۔زرعی اشیا، بیجوں، کھاد، ٹریکٹراور دیگر آلات پرسیلزٹیکس عائد ہوگا تو خوراک، ادویات اور اسٹیشنری پر10 فیصد سیلزٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔ توانائی کے شعبے میں سبسڈیزکیلئے 800 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔پنشن اصلاحات کے تحت نئے بھرتی ہونے والے ملازمین کیلئے رضاکارانہ کنٹری بیوٹری پنشن سسٹم متعارف کیے جانے کا امکان ہے جبکہ ریٹائرہونے والے ملازمین کوتاحیات کی بجائے 20 سال تک پنشن دی جانے کی تجویز ہے۔ملازمین کی فیملی پنشن کی مدت 10 تا15 سال جبکہ بیٹی کی پنشن ختم اورکموٹیشن کم کرنے کا بھی امکان ہے۔علاوہ ازیں دستاویز کے مطابق آئندہ بجٹ انفرااسٹرکچرکیلئے827ارب روپے، توانائی کیلئے253ارب، ٹرانسپورٹ اورمواصلات کیلئے279ارب روپے، آئندہ بجٹ میں پانی کے منصوبوں کیلئے 206 ارب روپے، سماجی شعبے کیلئے 280ارب روپے، صحت کیلئے45 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔دستاویز کے مطابق آئندہ بجٹ میں تعلیم اورہائرایجوکیشن کیلئے93ارب روپے، ایس ڈی جیزکیلئے 75 ارب روپے، زراعت کیلئے 42 ارب روپے، گورننس کیلئے 28 ارب روپے، سائنس و آئی ٹی کیلئے 79 ارب روپے، کے پی میں انضمام شدہ اضلاع کیلئے 64 ارب روپے اور آزادکشمیروگلگت بلتستان کیلئے75ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ہماری رائے میں آمدہ بجٹ 2024-2025میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 تا15فیصد اضافہ اگر کیا جاے گا تو ایک اچھی پیشرفت ہے کیونکہ مہنگائی کا عفریت ابھی بھی منہ کھولے ہوئے ہے اور چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ سے انہیں کچھ ریلیف ملے گا۔ کیونکہ صر ف چند اشیاء جن میں سبزی، دالیں اور چاول شامل ہیں کی قیمتوں میں کسی حد تک کمی دیکھنے میں آرہی ہے جبکہ مجموعی طور پر حکومتی دعوں کے باوجود مہنگائی میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی ہے۔ جو چاول 150روپے فی کلو تھا وہ 380روپے تک پہنچا لیکن اس چاول کی قیمت میں صرف 40 روپے فی کلو کمی واقع ہوئی، البتہ آٹے کی قیمت میں 60وپے فی کلو کمی دیکھنے میں آئی ہیجو مثبت بات ہے۔ لیکن پنجاب حکومت نے روٹی کی جو قیمت مقرر کی ہے راولپنڈی میں روٹی پرانی ہی قیمت پر دستیاب ہے اور کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔جہاں تک بجٹ 2024-2025کا تعلق ہے ان بجٹ تجاویز میں عوام کے لئے کوئی زیادہ ریلیف نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ اس میں حکومت کی جانب سے زیادہ انحصار ٹیکسوں اور سیلز ٹیکس میں اضافہ پر کیا گیا ہے۔ بلاشبہ جب بیشتر اشیاء جو عام اور روز مرہ کے استعمال کی ہوں ان اشیاء پر ٹیکس اور سیلز ٹیکس لگانے سے ان کی قیمتوں میں اضافہ لازمی امر ہے لہذا ایسی اشیاء عام لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوجائیں گی۔ اس حوالے سے منگل کے روز قومی اقتصادی سروے 2024-2025 کے اجرا کے حوالے سے معاشی ٹیم کے ساتھ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ زرعی شعبہ میں اچھی کارکردگی کیوجہ سے بھی شرح نمومیں اضافہ ہوا، مہنگائی مسلسل نیچے کی طرف آرہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی میں کمی کی وجہ سے کل شرح سود میں کمی واقع ہوئی، مئی میں مہنگائی کی شرح 11.8 پر آ گئی، آئندہ مالی سال کا آغاز بہتر انداز میں کریں گے، سٹیٹ بینک کی وجہ سے معاشی استحکام آیا، ایف بی آر کی کارکردگی بہتر ہورہی ہے۔ حکومتی دعوے اپنی جگہ لیکن وزیر خزانہ نے یہ اطراف تو کیا ہے کہ حکومت صنعتی ترقی اور مہنگائی میں کمی کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی البتہ آئندہ نئے مالی سال میں بہتری کی امید کا اظہار کیا گیاہے۔ حکومت کی طرف سے بیشتر اشیا پرسیلزٹیکس کی تجاویز، اضافی ٹیکسوں کے بوجھ، ود ہولڈنگ ٹیکس اور کسٹم دیوٹیز میں اضافہ، پیٹرولیم مصنوعات پر5 فیصد سیلزٹیکس،جی ایس ٹی ایک فیصد اضافہ اورغیرضروری ٹیکس چھوٹ ختم کرنے سے بلاشبہ بہت سی عام استعمال کی اشیاء اور رزعی آلات کی قیمتوں میں اضافہ ہوجانے کا امکان ہے۔ ایسا لگتا ہے بجٹ تجاویز کا سارا دارومدار ٹیکسوں پر ہی رکھا گیا ہے۔ ہماری رائے میں جب حکومت کی طرف سے سبسڈی اور ٹیکس میں چھوٹ اور استثنی ختم کیا جائے تو لا محالہ اس کے اثرات عام صارفین پر پڑتے ہیں اور بلاشبہ مہنگائی میں اضافہ بھی ممکن ہوتا ہے۔ امید کی جارہی تھی کہ حکومت بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دے گی، لیکن ٹیکسوں کے نئے شیڈول اور حکومتی آمدنی میں اضافے کے مقرر اہداف عوام کے لئے کوئی زیادہ حوصلہ افزاء اور امید کا باعث نہیں۔ سب سے بڑھ کر عوام یہ توقع رکھتی تھی کہ حکومت عوام کی مشکلات کا ادارک کرتے ہوئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی لائے گی لیکن بجٹ تجاویز میں ایسا کچھ نہیں، اسی طرح جس انداز میں عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی وقع ہوئی ہے اس طرح حکومت عوام کو اس مد میں ریلیف دینے سے قاصر نظر آتی ہے۔بلاشبہ جہاں تک مجموعی ٹیکس وصولیوں کا تعلق ہے ایف بی آر اور محکمہ انکم ٹیکس اپنے اہداف سے زیادہ وصولیاں حاصل کرنے کے لئے جو اقدامات بھی اٹھائے وہ ضرور اٹھانے چایئے، اس حوالے سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ،ٹیکس چور وں اور بڑی مچھلیوں کو شکنجے میں لانے کے لئے ضروری اقدامات سے ہی آمدنی میں اضافہ اور اہداف کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے ناکہ اشیاء خوردونوش اور یوٹیلیٹی سروسز پرڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار کرکے صارفین اور عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا جائے۔ ہماری دانست میں عوام کی قوت خرید میں بہتری اور اضافہ سے خوشحالی اور معاشی ترقی کے اہداف حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ امید ہے حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لیے بجٹ تجاویز میں بہتری لائے گی اور آئی ایم ایف کے ایجنڈے سے ہٹ کر عوام اور ملکی مفاد میں ہی فیصلے یقینی بناتے ہوئے بجٹ کو عوام دوست اور ٹیکس فری بجٹ بنائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں