ہمارے بارے میں

اخبار رہبر کا نام میرنور الدین شاہ اختر نے بڑے غور و خوض کے بعد رکھا تھا۔ رہبر اپنے اندر وسیع مفہوم اور معنی رکھتاہے۔ رہبر 1996ء میں منشا ء مشہو د پر آیا قبل ازیں ہفت روزہ انقلاب کا نام بھی محترم میر نورالدین نے تجویز کیا تھا۔ رہبر اور انقلاب محترم نورالدین کی انقلابی سوچ اور قائدانہ صلاحیت کی عکاسی کرتاہے۔ کسی بھی قوم کو انقلاب کے آغاز کیلئے ایک اعلیٰ اوصاف اور صلاحیت کے حامل رہبر یعنی لیڈر یا رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ مرحوم والد بزرگوار کیونکہ بنیادی طور پر صحافی اور قلم کار ہونے کے علاوہ ایک مجاہد اور خاکسار تھے۔ جذبہ آزادی ان کی رگوں میں کوٹ کوٹ کربھرا تھا۔ وہ آزادی کو ایک نعمت سے کم نہیں سمجھتے تھے، کیونکہ انہوں نے برصغیر میں انگریز کے اقتدار کے خلاف خاکسار تحریک کے پلیٹ فارم سے ناصرف جدوجہد کی بلکہ عملی طور پر حصہ لیا۔
قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، آٹھ سال تک جیل میں قید بامشقت کاٹی اور مملکت خدادا پاکستان کے قیام کے بعد رہائی پائی تو اپنی تحریکی طبیعت اور خاکساری جذبے کے باعث ریاست جموں و کشمیر میں ڈوگرہ راج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ جب مرحوم آزادکشمیر سے مقبوضہ ریاست میں داخل ہوئے تو ڈوگرہ اور بھارتی جارحیت کے خلاف تحریک عروج پر تھی۔ انہوں نے اپنے گاؤں میں باقاعدہ انداز میں مجاہدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور پھر ڈوگرہ شاہی نے ان کے زندہ یا مردہ گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تو مرحوم نے رات کی تاریکی میں سیز فائر لائن عبور کرتے ہوئے مظفر آباد واپسی کی اور پھر آزاد خطہ اورپاکستان میں رہتے ہوئے صحافت اور سیاست کا جرأت کے ساتھ آغاز کیا۔ مرحوم نے مختلف اخبارات کیلئے کالم بھی تحریر کئے، مختلف اخبارات قومی علاقائی جرائد کی ادارت کی۔ مختلف اخبارات کا اجراء کیا۔
رہبر مرحوم نور الدین کی سوچ اور خیالات کا مظہر ہے۔ والد بزرگوار کہتے تھے پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے پاکستان اور نظریہ پاکستان خون کی طرح ہماری رگوں میں دوڑتا ہے لہذا رہبر ان کے خیالات اورمشن کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ روزنامہ رھبر ایک اردو خبار ہے ، اور یہ رھبر میڈیا گروپ آف نیوز پیپرز کی طرف سے شائع ہوتا ہے ،رھبر اخبار کا شمار پاکستان کے لیڈنگ اخبارات میں ہوتا ہے ، روزنامہ رھبر کی 1996 سے اب تک مسلسل اشاعت جاری ہے، اسلام آباد ، راولپنڈی، مظفر آباد اور گلگت بلتستان سے بیک وقت شائع ہوتا ہے ۔ روز نامہ رھبر کا سلوگن (نعرہ) زرد صحافت کے خلاف جہاں مثبت اور تعمیری صحافت کا فروغ ہی رہبر کا مشن ہے اور اگر قوم کو صحیح سمت رہنمائی دینے کیلئے حقیقی رہبر میسر آجائے تو مثبت اور تعمیری انقلاب ضرور ظہور پذیر ہوتا ہے۔ یہی ہمارا مشن اور نقطہ نظر ہے۔

“میرنور الدین شاہ اختر مرحوم”

بانی روزنامہ رھبر، ہفت روزہ انقلاب

میرنور الدین شاہ اختر المعروف میر صاحب ریاست جموں و کشمیر کے ایک معروف مذہبی اور سیاسی سادات (قاضی) قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جو ضلع بارہمولہ کے ایک مشہور قصبہ دلنہ کے رہنے والے تھے۔ مرحوم نور الدین ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے وہ بلا شبہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، وہ ایک صحافی، کالم نگار، براڈ کاسٹر، رائٹر اور ڈرامہ نگار ہونے کے ساتھ ایک غازی خاکسار اور سیاسی رہنما بھی تھے۔ مرحوم مختلف قومی اور علاقائی اخبارات اور جرائد میں لکھنے کے علاوہ مختلف روزناموں کے ایڈیٹر بھی رہے۔ انہوں نے 1975ء میں ہفت روزہ اخبار ”انقلاب کا مظفر آباد اور راولپنڈی سے اجراء کیا اور بعد میں 1996ء میں ہفت روزہ ”رھبر“ کا اجراء کیا جو اب روزنامہ کے طور پر شائع ہورہا ہے۔
مرحوم روزنامہ النقیب اور روزنامہ جرأت کے ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ قبل ازیں میر صاحب نے 1950ء کے اوائل میں معروف جریدہ”آغاز“ کا اجراء اپنے برادر اصغر حفیظ اللہ شاہ المعروف عبدالحفیظ سالب کے ساتھ مل کر کیا۔ ہفت روزہ آغاز اپنے وقت میں ریاست جموں و کشمیر کا ایک معروف اور موقرجریدہ تھا۔ مرحوم نور الدین اختر مختلف اخبارات اور جرائد میں اہم کالم لکھتے تھے۔ ان کے کالموں میں ”قفس کی تیلیوں سے شاخ آشیاں تک“ ”اسے پڑھنا گناہ ہے“ ”جام جم“ نہایت مقبول تھے۔ ریاست جموں و کشمیر کے معروف رسالے، ماہنامہ ”گاش“ جو مظفر آباد، راولپنڈی،لندن اور دیامر (گلگت بلتستان)سے دو زابوں انگلش اور اردو میں شائع ہوتا ہے، اس رسالے کیلئے مرحوم نور الدین کا کالم ”پھول بھی اور انگارے بھی“ بہت مقبول تھا۔
میر نورالدین اختر مرحوم کی ریڈیو پاکستان اور ریڈیو آزاد کشمیر کیلئے بڑی خدمات ہیں، آزادکشمیر ریڈیو تراڑکھل کے پروگرام ”میرے وطن“ کے وہ نہ صرف میزبان تھے بلکہ پروگرام کے رائٹر بھی تھے۔ پروگرام ”میرے وطن“ اپنے وقت کا مقبول ترین پروگرام تھا، اس پروگرام کی باز گشت بھارت کے اعلیٰ ایوانوں اور بھارتی پارلیمنٹ میں سنی جاتی تھی، مرحوم میر صاحب اور ان کے دوست راجہ افتخار حسین المعروف اللہ لوک پروگرام کی جان تھے ان کا اسلوب بیان اس قدر پرکشش تھا کہ لوگ پروگرام کے شروع ہونے سے پہلے ہی ہوٹلوں اور دکانوں پر رات 9بجے ریڈیو کے آگے پروگرام شروع ہونے کے انتظار میں ہوتے تھے۔ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے اس پروگرام کی اہمیت اور افادیت کاملک و قوم کا ہر فرد معترف تھا۔
ریڈیو آزاد کشمیر کیلئے خدمات کے اعتراف میں انہیں 1990ء میں صدارتی گولڈ میڈل کے علاوہ ان کی صحافتی اور صوتی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے پہلے یوم تکبیر کے موقع پر 1999ء میں گولڈ میڈل اور تعریفی سند سے بھی نوازا۔ مرحوم میرنورالدین اختر تحریک آزادی کشمیر کیلئے جذبہ سے سرشار تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ 1990ء کی دہائی میں آخری سانس تک کشمیر میڈیا سروس میں خدمات انجام دیتے رہے اور اگر یہ کہا جائے کہ مرحوم کشمیر میڈیا سروس کے روح رواں اور بانیوں میں سے تھے تو غلط نہ ہوگا اس ادارے کو قائم کرنے میں مرحوم کا ایک اہم اور کلیدی کردار تھا۔ انہوں نے زندگی کے آخری ایام تک تحریک آزادی کو صحیح تناظر میں اجاگر کرنے کیلئے اپنا قلمی جہاد جاری رکھا۔
مرحوم تحریک آزادی کشمیر کے ایک سپاہی ہونے کے علاوہ برصغیر میں خاکسار تحریک کے مقبول ترین (جیش 313) مجاہدین میں سب سے کم عمر خاکسار مجاہد تھے۔ جیش 313جنہوں نے انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کے طور پر 19مارچ 1940ء کو لاہور میں ایک تاریخی لانگ مارچ کیا اور انگریز حکومت کی بربریت کے باعث خاکسار جیش کا انگریز سپاہیوں کے ساتھ تصادم ہوگیا، کئی انگریز ظالم فوجی واصل جنم ہوئے اور متعدد خاکسار مجاہد بھی شہید اور غازی ہوئے یا پھر قیدو بندمیں رہے۔ بحوالہ کتاب ’ایک چونکا سانحہ‘ جو قیام پاکستان کی بنیاد بنا“ یہ کتاب خاکسار تحریک کے ادارہ مکتبہ حریت لاہور نے شائع کی تھی۔
مرحوم میر نور الدین شاہ اختر بہادر غازی کو انگریز حکومت نے بغاوت اور انگریز فوجی افسر کے قتل کے الزام میں عمر قید اور پھر جزیرہ انڈومان جو کالے پانی کے نام سے مشہور ہے میں سزائے موت سنائی تھی لیکن مملکت خداداد پاکستان کے قیام کے باعث پنجاب کی مختلف جیلوں میں قید بامشقت کی صعوبتیں برداشت کرنے کے 8سال بعد پنجاب منٹگمری موجودہ ساہیوال کی جیل سے رہائی پائی۔
مرحوم کی رہائی کے بعد خاکسار تحریک نے مرحوم کو غازی بہادر کے لقب سے نوازا اور ان کی تصویر کے ساتھ خوبصورت کیلنڈر بھی شائع کیا۔ مرحوم میرنور الدین نظریہ الحاق پاکستان کے ایک بڑے داعی، مبلغ اور حمایتی تھے اور زندگی بھر اس نظرئیے پر قائم رہے اور یہ نظریہ ان کو خاندانی طور پر وراثت میں ملا تھا۔ مرحوم کے چچا قاضی عبدالغنی شاہ جو ریاست میں قاضی آف دلنہ کے نام سے مشہور تھے،جو شیخ محمد عبداللہ اور چوہدری غلام عباس کے قریبی ساتھوں میں سے تھے او ان کا شمار ر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے بانیوں میں ہوتا تھا۔ مرحوم قاضی عبدالغنی شاہ ریاست کی اسمبلی (پرجاسبھا) میں تین مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے مد مقابل بڑے بڑے مخالفین کی انتخابات میں مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ضمانتیں ضبط کرادیں تھیں۔ قاضی مرحوم تحریک آزادی کشمیر کے بڑے سپاہی ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے بھی بڑے مبلغ تھے۔ ریاستی اسمبلی میں ان کی تقاریر اور قصبہ دلنہ کے مرکز میں اپنے گھر کے سامنے پاکستان کا جھنڈا لہرائے رکھنا ہماری تاریخ کا ایک اہم ناقابل فراموش باب ہے۔ یہ ان کی جرات اور پاکستان سے عقیدت کی اثر تھا کہ 1956ء تک جب وہ اس جہاں فانی سے رخصت ہوئیبھارتی افواج کی موجودگی میں پاکستان کا جھنڈا ان کے گاؤں پر لہراتا رہا۔ مرحوم نور الدین کے آباؤ اجداد کا تعلق بخارا سے تھا، ان کے جد امجد میر علی بخاری، سلطان زین العابدین جو تاریخ کشمیرمیں ”بڈشاہ“ یعنی بڑا بادشاہ کے نام سے مشہور تھے کے دور میں ریاست کشمیر میں واردہوئے۔
میر علی بخاری کو ان کے علم و فضل اور خاندانی پس منظر کے باعث سلطان زین العابدین نے شاہی خلعت سے نوازا، قانون کا قلمدان دیا اور ریاست کے قاضی القضاء کے منصب جلیلہ پر تعینات کیا۔ بعد ازاں میر علی بخاری کی اولاد میں چار نسلوں تک قاضی القضاء کامنصب جلیلہ قائم رہا۔ بحوالہ تاریخ کبیر کشمیر، تحائف الابرار، میر علی بخاری کے خاندان کاذکر تاریخ کشمیر کی تمام قدیم کتابوں کے علاوہ بعد میں بھی لکھی جانے والی تمام مستند کتابوں میں ملتا ہے۔ اور یہ اسی خاندان کا اعزاز ہے کہ اس کی چار نسلوں میں قاضی القضاء کا منصب جلیلہ قائم رہا
علم و فضل اور حسب و نسب کے باعث اس سادات خاندان میں قضا یعنی قانون کا شعبہ کئی پشتوں تک چلتا رہا جس کے باعث ریاست میں میر علی بخاری اور ان کے پوتے میر موسیٰ شاہ شہید کی اولاد کو احترام کے طور پر قاضی خاندان سے منسوب کیا جاتا رہا اور اس خاندان کے افراد میر علی بخاری اور میر موسی شاہ شہید سے نسبت کے باعث قاضی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب عبدالغنی شاہ آف دلنہ ریاستی سیاست کے افق پرنمودار ہوئے تو وہ تاریخ میں قاضی آف دلنہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ آزاد کشمیر کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد یوسف صراف نے اپنی کتاب ”Kashmir,s Fight for Freedom میں قاضی صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے اور تحریک آزادی کیلئے ان کی خدمات کے اعتراف کیلئے ایک باب قاضی آف دلنہ کے نام سے بھی تحریر کیا ہے جس میں قاضی عبدالغنی کی ڈوگرہ شاہی کے خلاف تحریک میں قربانیوں کا تذکرہ ہے۔
مرحوم میرنور الدین کے تین بیٹوں سے بڑے بیٹے سید ریاض حسین شاہ مرحوم چیف ایڈیٹر ہفت روزہ انقلاب 15ستمبر 2010ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون،جبکہ دوسرے بیٹے سید زاھد حسین شاہ لندن میں مقیم ہیں روزنامہ رہبر کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں جبکہ سب سے چھوٹے بیٹے سید سجاد حسین شاہ روزنامہ رہبر کے چیف ایڈیٹر اور پبلشر ہیں۔
مرحوم نور الدین اختر ایک بڑے سیاسی، مذہبی خاندانی پس منظر کی حامل شخضیت ہونے کے علاوہ خود بھی ایک بڑی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ 1924ء میں پیدا ہوئے تھے اور 76سال کی عمر میں 2000ء میں راولپنڈی میں اس جہاں فانی سے مختصر علالت کے بعدرخصت ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون