آئی ایم ایف 0

ملک کی معیشت میں بہتری آئی ایم ایف اور آئی پیز پیز سے نجات حاصل کرنے میں ہی ممکن ہے

ملک کی معیشت میں بہتری آئی ایم ایف اور آئی پیز پیز سے نجات حاصل کرنے میں ہی ممکن ہے

پیر کے روز قومی اسمبلی اجلاس میں رکن قومی اسمبلی غوث محمد کی جانب سے آئی پیز پیز سے متعلق توجہ دلاوء نوٹس کے جواب میں وزیر توانائی اویس لغاری کا کہناتھ تھا کہ وزارت توانائی پانی سے چلنے والے بجلی گھروں کی نگرانی کرتی ہے، میں غلط جواب نہیں دینا چاہتا، ایوان میں مکمل بریفنگ دینے کیلیے تیار ہوں۔اویس لغاری نے کہا کہ 1997 سے یہ پلانٹس کیوں لگے؟ اس پر تفصیل سے بات ہونی چاہئے تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہو، میں اپنے محکمے کی غلطیوں کو قبول کروں گا اور حل بھی بتائیں گے، ہم نے ماضی میں بھی پی ٹی سی ایل کی حکومت اور بیوروکریسی سے جان چھڑائی ہے۔وزیر توانائی نے کہا کہ ہم آئی پی پیز کے حوالے سے ورکنگ مکمل کر چکے ہیں، میں تفصیلی پریزینٹیشن دوں گا، پریزینٹیشن پر تین گھنٹے لگیں گے۔اویس لغاری کا کہنا تھا کہ غوث محمد نے اپنے سوال کے ذریعے غیر متعلقہ معلومات مانگی ہیں، آئی پی پیز کے حوالے سے غیر متعلقہ معلومات نہیں دوں گا۔یاد رہے کہ رکن قومی اسمبلی غوث محمدنے پیش کئے گئے توجہ دلا نوٹس میں سوال کیا تھا کہ پاکستان میں کتنے آئی پی پیز ہیں، کتنے پلانٹ ہیں اور کہاں نصب ہیں؟ آئی پی پیز کے مالکان کون ہیں اور پچھلے ایک سال میں کتنی بجلی بنائی گئی اور انہیں کتنی ادائیگی کی گئی؟ ہماری رائے میں رکن اسمبلی غوث محمد کی طرف سے توجہ دلاوء نوٹس میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ بلا شبہ مفاد عامہ میں ایک منتخب عوامی نمائندے کا حق ہے تاکہ عوام الناس کو آگائی ہوسکے کہ آخر ان پر بجلی بلات کا جو بھاری بھرکم بوجھ ڈالا گیا ہے اس کے ذمہ دار کون ہیں اور آخر آئی پیز پیز کے زریعے ہی حکومت بجلی کی پیداوار کیوں لینا چاہتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں بجلی پیدا کرنے کے دیگر متبادل زرائع موجود نہیں ہیں اور کیا صارفین کو آئی پیز پیز کے زریعے مہنگی بجلی فراہم کرنے سے کون سی عوامی خدمت ہو رہی ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آیا رکن قومی اسمبلی غوث محمد نے ایسی کون سی غیر متعلقہ معلومات مانگی ہیں جس پر وزیر توانائی اویس خان لغاری کو بتانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں آخر یہ پاکستانی عوام کی بقاء اور معاشی استحکام کا معاملہ ہے کہ چند غیر ملکی اور زیادہ تر مقامی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں پر ہی نوازشات کیوں، بلاشبہ مہنگے داموں بجلی کی پیدوار نے عوام کی قوت خرید ختم کردی ہے اور مہنگی بجلی ہی دراصل مہنگائی اور غربت کی اصل وجہ ہے جس کے عوام کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ کیا ہو رہا ہے۔ ایک طرف آئی پیز پیز اور دوسری آئی ایم ایف نے پاکستانی عوام پر کمال مہربانی کرتے ہوئے مہنگی ترین بجلی کے بم گرائے ہیں۔ ہماری رائے میں حکومت کو عوامی مشکلات کا ادارک کرتے ہوئے وطن عزیز کو آئی پیز پیز اورآئی ایم ایف کے چنگل سے نکالنے کے لئے مثبت اور موثر اقدامات اٹھانا ہونگے۔ بلاشبہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ نے عوام کی چیخیں نکال دیں ہیں کیونکہ مہنگی بجلی اور گیس کے بھاری بھرکم بلات کے باعث ایک عام متوسط شہری کو اپنی آمدنی کا بڑا حصہ یوٹیلیٹی بلوں کی نظر کرنا پڑ رہا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ آئے روز بجلی بلوں میں اضافہ کی نوید سنائی جاتی ہے اور اس پر طرع یہ کہ ان بلات پر ٹیکسوں کی بھرمار کی جاتی ہے۔ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر حکومت کی کون سی مجبوری ہے کہ بجلی صرف آئی پیز پیز سے یہی حاصل کی جائے جبکہ دیگر متبادل زرائع کا استعمال کرکے سستی بجلی کی پیداوار یقینی بنائی جاسکتی ہے تاکہ عوام کو کچھ ریلیف تو مل سکے۔ پاکستان میں کوئلے کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں اسی طرح پن بجلی کے منصوبوں سے سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے پاکستان،آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں میں پانی کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں لیکن ہائیڈل پاور جنریشن کے محدود منصوبے لگائے گئے ہیں اس طرح کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کے باعث بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے اور صارفین پر فیول ایڈجسٹمنٹ کا بوجھ ڈال کر اضافی بلات وصول کئے جاتے ہیں۔ بلاشبہ جب تک حکومت آئی پیز پیز سے بجلی پیدا کرنے اور خریدنے کے معائدے ختم نہیں کرئے گی اورمہنگی بجلی سے عوام کی جان نہیں چھڑائے گی بہتری کے امکانات کم ہیں۔ ہماری رائے میں وزیر توانائی اویس خان لغاری کو رکن اسمبلی غوث محمد کے تمام سوالات کا جواب مفاد عامہ میں دینا چایئے تاکہ عوام کو اصل صورتحال سے آگائی ہو اور واضع تصویر عوام کے سامنے آئے کہ کس طرح سابق حکمرانوں نے اپنے خاص من پسند افراد کو نوازنے کے لئے آئی پیز پیز کے زریعے عوام کو مہنگی بجلی کے ٹیکے لگائے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک اور اس کی عوام کا استحصال آئی پیز پیز کے زریعے مہنگی بجلی فراہم کرکے کیا جارہا ہے۔ اسی طرح ملک کی معیشت بھی قرضوں کے باعث عالمی مالیاتی ادارے کی دست نگر ہو کر رہ گئی ہے اور آئی ایم ایف ہمارے معاشی معاملات میں کھل کر مداخلت کرتا نظر آتا ہے جس سے وطن عزیز کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ضروری ہوگا کہ ملک اور اس کی عوام کو آئی پیز پیز اور آئی ایم ایف کے چنگل سے نجات دلائی جائے اسی میں ملک کی بہتری اور عوام کی خوشحالی کا راز ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں