یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن 0

وفاقی حکومت کا یوٹیلیٹی سٹورز بند کرنے کا فیصلہ اس ادارے کی بری اور ناقص کارکردگی کے تناظر میں درست سمت تو ہوسکتا ہے لیکن ضروری ہوگا کہ اس ادارے سے منسلک 11ہزار افراد کے روزکار کا مسئلہ حل کرنا بھی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے

وفاقی حکومت کا یوٹیلیٹی سٹورز بند کرنے کا فیصلہ اس ادارے کی بری اور ناقص کارکردگی کے تناظر میں درست سمت تو ہوسکتا ہے لیکن ضروری ہوگا کہ اس ادارے سے منسلک 11ہزار افراد کے روزکار کا مسئلہ حل کرنا بھی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے

وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کو مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کر لیا،وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کو بند کرنے کیلئے 2ہفتے کا وقت دے دیا، فیصلے سے یوٹیلیٹی سٹور کے ہزاروں ملازمین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔یوٹیلیٹی اسٹورز کی انتظامیہ کے مطابق ہمیں اشیائے خوردونوش سپلائی کرنے والی کمپنیوں سے لین دین کے معاملات نمٹانے کیلئے 2ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔اس حوالے سے سیکرٹری صنعت و پیداوار نے کہا کہ وفاقی حکومت یوٹیلیٹی اسٹورز بند کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے، رائٹ سائزنگ کمیٹی نے تجاویز تیار کی ہیں جس میں مختلف وزارتیں بھی شامل ہیں، وفاقی حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں جس کے باعث یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے۔رائٹ سائزنگ کمیٹی کی دیگر اداروں کو بند کرنے کی تجویز کی حتمی منظوری وفاقی کابینہ دے گی،کابینہ کی منظوری کے بعد جو ٹائم لائن طے ہوگا اس کے مطابق اسٹورز بند ہو جائیں گے۔دوسری جانب وفاقی حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ صارفین کو دیا جانے والا ریلیف بھی بند کر دیا ہے۔ذرائع کے مطابق بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والی یہ سبسڈی غیر اعلانیہ بند کی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے وٹیلٹی اسٹورز بندکرنے کے فیصلے کے باعث گیارہ ہزار سے زائد ملازمین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اس فیصلے کے بعد ملازمین نے ہڑتال کی دھمکی دے دی۔بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود یوٹیلیٹی اسٹورز پر ایک سال قبل عام صارفین کیلئے سبسڈی ختم کر دی گئی تھی۔ صرف بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ افراد کو پانچ بنیادی اشیا ضروریہ پر 25فیصد سبسڈی دی جا رہی تھی، اب وہ بھی ختم کردی گئی ہے،ملک بھر میں 4400یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیا کے ریٹ اوپن مارکیٹ سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ہماری رائے میں وفاقی حکومت کا یوٹیلیٹی سٹورز بند کرنے کا فیصلہ حکومت کی اپنی صوابید پر ہے لیکن اس کے نتیجے میں 11ہزار ملازمین بے روزگار ہوجائیں گئے ایسے میں جب ملک میں پہلے ہی غربت کا گراف اوپر کی جانب جارہا ہے اوربے روزگاری عروج پر ہے مزید 11ہزار افراد کو بے روزگار کرکے مزید مشکلات اور مسائل میں اضافہ ہوگا۔ ہم اکثر ان کالموں میں یوٹیلیٹی سٹورز کی کارکردگی اور غیر معیاری اشیاء کی فروخت کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے چلے آئیں ہیں اورارباب اختیار کو ئی یہی رائے دیتے رہے ہیں کہ اس ادارے کوسفید ہاتھی بنانے کی بجائے فعال اور بہتر بنانے کے لئے موثراقدامات اٹھائے جائیں تاکہ اس ادارے کی کارکردگی بہتر ہوسکے اور عوام کو اس کا فائدہ ہو۔ بلاشبہ یوٹیلیٹی سٹورز کاروپوریشن کے قیام کا مقصد عوام کو معیاری اور سستی اشیاء ضروریہ فراہم کرنا تھا لیکن حقیقت میں پچھلے کئی سالوں سے اس ادارے کی کارکردگی پر کئی سوال اٹھ رہے تھے۔ ان سٹوورز پر غیر معیاری اشیاء کی فروخت کی شکایات اکثر رہتی تھیں،لہذا یہ ادارہ اپنے قیام کے مقاصد کو حاصل کرنے میں مجموعی طور پر ناکام رہا۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں حکومت بجائے اس ادارے کی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لئے اقدامات اٹھاتی اس ادارے کو بند کرنے کا ہی فیصلہ کرلیا گیا جس سے اس ادارے سے منسلک 11ہزار ملازمین کو پریشانی لاحق ہوگئی۔یاد رہے کہ حکومت کی طرف سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود یوٹیلیٹی اسٹورز پر ایک سال قبل ہی عام صارفین کیلئے سبسڈی ختم کر دی گئی تھی اور صرف بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ افراد کو پانچ بنیادی اشیا ضروریہ پر جو 25فیصد سبسڈی دی جا رہی تھی، اب وہ بھی ختم کردی گئی ہے۔بلاشبہ کارکرگی کے لحاظ سے اس ادارے کی بظاہر اب کوئی افادیت باقی نہیں رہی اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ ادارہ ملک کے وسائل پر سفید ہاتھی بن کر رہ گیاتھا تو غلط نہ ہوگا، لیکن ان حقائق کے باوجود جہاں تک 11ہزار افراد کے روزگار کا معاملہ ہے حکومت کو اس حوالے سے ان افراد کے روزگار کے لئے کوئی راستہ تو نکالنا ہی پڑے گا وگرنہ پہلے سے موجود بے روزگاری کا حجم مزید بڑھ جائے گا۔ بلاشبہ ایک ایسا ادارہ جو اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہے، عوام کو سستی اور معیاری اشیاء ضروریہ کی فراہمی بھی یقینی نہ بنائی جاسکے تو ایسے ادارے کے وجود کا کوئی فائد اور جواز باقی نہیں رہتا لہذا یسا ادارہ ملک کے وسائل پر اضافی بوجھ سے زیادہ کچھ نہیں۔ بلاشبہ شروع ایام میں جب یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا اس کی کارکردگی اور معیار کافی بہتر تھا اور عوام ان سٹورز سے مستفید بھی ہوتے تھے لیکن کرپشن اور بد عنوان مافیا نے اس ادارے کو تباہ کرکے رکھ دیا جس کے باعث یہ ادارہ اپنی افادیت اور اہمیت کھو بیٹھا۔مجبورعوام سرکاری سٹور کی بجائے نجی سٹورز سے خرید و فروخت کو ترجیح دیتے ہیں۔ بلاشبہ یہ کرپشن اور بد عنوانی کا ہی شاخسانہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے یہ ادارہ بے مقصد اور بے کار ہوکر رہ گیا تھا،مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر ان سٹورز پر غیر معیاری اشیاء ضروریہ فروخت کی جاتی رہیں اور صرف یہی نہیں اکثر اشیاء ضروریہ کی فروخت ان سٹورز پرناپید ہوتی تھی،جس کے باعث ایسے افراد جو مہنگے سٹورز سے مہنگے داموں اشیاء خوردونوش خریدنے کی استعطاعت نہیں رکھتے تھے ان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اس حوالے سے بھی ارباب اختیار نے ان سٹورز کی خراب صورتحال کا کوئی خاص نوٹس نہ لیا جو اس ادارے کے زوال کا سبب بنا۔ اب حکومت کی طرف سے اگر اس ادارے کو بند کرنا مقصود ہے جو بلاشبہ اس ادارے کی بری کارکردگی اور حقائق کے تناظر میں ایک اچھا فیصلہ تو ہوسکتا ہے لیکن جہاں تک11ہزار چھوٹے ملازمین کے روزگار کامعاملہ ہے حکومت اس اہم مسئلے کو نظر انداز نہیں کرسکتی اور نہ ہی حکومت کو کرنا چایئے۔ بلاشبہ ان افراد کے متبادل روزگار کے لئے راستہ نکالنابھی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں