سپریم کورٹ 0

سپریم کورٹ میں زبانی باتیں نہیں ہوتیں پڑھ کربتائیں۔ گواہ کیس ثابت نہیں کرتا بلکہ ریکارڈ ثابت کرتا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سپریم کورٹ میں زبانی باتیں نہیں ہوتیں پڑھ کربتائیں۔ گواہ کیس ثابت نہیں کرتا بلکہ ریکارڈ ثابت کرتا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
مدعا علیہ کے بیان میں جتنا بھی تضاد ہے کیس تودرخواست گزارنے ثابت کرنا ہے
وکیل کیس دائر کرنے سے پہلے پڑھ لیا کریں اچھا ہوتا ہے،تقریر نہ کریں،دستاویزات دکھائیں۔ دوران سماعت ریمارکس

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں زبانی باتیں نہیں ہوتیں پڑھ کربتائیں۔ گواہ کیس ثابت نہیں کرتا بلکہ ریکارڈ ثابت کرتا ہے۔ مدعا علیہ کے بیان میں جتنا بھی تضاد ہے کیس تودرخواست گزارنے ثابت کرنا ہے۔ وکیل جب ذاتی حیثیت میں پیش ہوتاہے تو وردی میں نہیں آتا، اپنے پیشہ کواتنارسوانہ کریں، کوٹ اتارنے میں زیادہ وقت تونہیں لگتا۔وکیل کیس دائر کرنے سے پہلے پڑھ لیا کریں اچھا ہوتا ہے،تقریر نہ کریں،دستاویزات دکھائیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے جمعرات کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے عبدالغنی کی جانب سے گوہررشید اوردیگر کے خلاف زمین کے تنازعہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔

چیف جسٹس درخواست گزار کے وکیل وسیم الدین خٹک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم مفروضوں پر نہیں جائیں گے، آپ کو وضاحت سے بات کرنی چاہیئے تھی، کبھی کہتے ہیں گھر ہے، کبھی کہتے ہیں چوک ہے اور کبھی چوک بیٹھک ہے، کوئی گھر کانقشہ پیش نہیں کیا، ہم کیسے اس کا فیصلہ کردیں، شواہد کی بات ہوگی، مدعاعلیہ کاکام تونہیں آپ کاکیس ثابت کرے ۔چیف جسٹس نے وکیل کی جانب سے پسماندہ علاقہ کالفظ استعمال کرنے پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ پسماندہ علاقہ کالفظ ہی استعمال نہ کریں، جو کرائے کے گواہ بیٹھے ہوئے ہیں ان کو پیش کردیں، ریڈی میڈ چھپا ہوانوٹس بھیج دیا،یہ توپھر کوئی نوٹس نہیں ہوا، یہ میں پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں کہ چھپا ہوانوٹس بھیج دیا، ہرکیس میں چل جائے گا۔ چیف جسٹس کاحکم میں کہنا تھا کہ زمین پر شفع کے معاملے پر ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف درخواست گزارنے اپیل دائر کی۔

عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔بینچ نے عبدالمتین کی جانب سے پچھائی کے خلاف ڈیڑھ مرلہ زمین کے تنازعہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے شیر امان یوسفزئی بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کیس ثابت نہیں کرپائے دونوں خسروں کے درمیان سے سڑک گززتی ہے،خسرہ الگ ہورہا ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ متعلقہ پٹواری نے بھی خلاف بیان دیا، درخواست گزارریکارڈ سے بات کریں۔وکیل کاکہنا تھا کہ یہ سوات کاکیس ہے جو کہ میراگائوں ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ریکارڈ سے کیس چلاتے ہیں، میراگائوں ہے، آپ کی زمین سے ٹکڑا نکل ہی نہیں سکتا تھا ، سڑک سے نکل سکتا تھا۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سرکاری ریکارڈ کیپر کے پاس کیس پیش ہی نہیں کیا کہ آپ میراڈیڑھ مرلہ کھا گئے ہو۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ اوربھی خطرناک بات ہے کہ یہ آپ کااپنا گواہ ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ مدعا علیہ کے بیان میں جتنا بھی تضاد ہے کیس تودرخواست گزارنے ثابت کرنا ہے، یہ دکھادیںکہ مدعاعلیہ کہتاہے کہ میں نے اِن کی زمین پرقبضہ کیاہوا ہے، ملکیت کہاں تسلیم کرتا ہے وہ دکھادیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ گواہ کیس ثابت نہیں کرتا بلکہ ریکارڈ ثابت کرتا ہے۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔بینچ نے سروس اورپینشن کے تنازعہ پر سیکرٹری خیبرپختونخوا پبلک ہیلتھ نجینئرنگ ڈیپاٹمنٹ ، پشاوراوردیگر کی جانب سے سرفراز خان کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔چیف جسٹس نے وکیل سے استفار کیا کہ ترقی ہوئی ہے کہ نہیں۔

اس پروکیل کاکہنا تھا کہ نہیں ہوئی۔چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کون ساسپریم کورٹ کا2016میں فیصلہ آیا اُس کی شکل تودکھادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اصل نقطہ پرآئیں، تو، تو، تو، پھرکیا ہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں زبانی باتیں نہیں ہوتیں پڑھ کربتائیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے 2016کے فیصلے کی روشنی میں درخواست واپس لے لیں اور اگر سروسز ٹربیونل دوبارہ آپ کے خلاف فیصلہ دے توپھر ہمارے پاس آجائیں۔

عدالت نے واپس لینے کی بنیاد پر درخواست نمٹادی۔ بینچ نے وکیل محمد اقبال کی جانب سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج، لاہور اوردیگر کے خلاف زمین مکان پر قبضہ کے حوالہ سے دائر دردودرخواستوں پر سماعت کی ۔

چیف جسٹس کادرخواست گزاروکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وکیل جب ذاتی حیثیت میں پیش ہوتاہے تو وردی میں نہیں آتا، اپنے پیشہ کواتنارسوانہ کریں، کوٹ اتارنے میں زیادہ وقت تونہیں لگتا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیس کی نوعیت کیا ہے، شادی کامقدمہ ہے زمین کامقدمہ ہے، کس چیز کا مقدمہ ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اپنا کیس توبتائیں عدالت سے کیا مانگ رہے تھے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سیل ڈیڈ کیو نہیں لگائی۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ قبضہ کس کے پاس ہے، مدعاعلیحان کے قبضہ کیسے آیا، آپ نے زمین کیسے خریدی کوئی چیز دکھاہی نہیں رہے۔ اس دوران ایک بوڑھی خاتون نے پیش ہوکربتایا کہ اُس کانام حمیداں بی بی ہے اوراس کا مکان کی خریدوفروخت سے کوئی تعلق نہیں پتا نہیں کس نے اس کا نام ڈال دیا اوراسے نوٹس آگیا۔ اس پر عدالت میں موجود مدعا علیہ کاکہنا تھا کہ درخواست گزارمحمد اقبال نے خاتون کانام کیس میںڈالا۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ اقبال صاحب! فرمایئے، آپ کی سمجھ ہی نہیں آرہی،اسلام آباد آیئے کیس چلایئے یاوکیل کیجئے۔ عدالت نے دوہفتے کاوقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار کوہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر اسلام آباد آئیں یاوکیل کریں،خود بحث کریں تووکیل کے لباس میں نہ آئیں۔ جبکہ بینچ نے عبدالستار کی جانب سے زاہد احمد خان لودھی اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزارکی جانب سے سید ناصر علی شاہ بطور وکیل پیش ہوئے۔چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیس دائر کرنے سے پہلے پڑھ لیا کریں اچھا ہوتا ہے،تقریر نہ کریں،دستاویزات دکھائیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پراسیس سرور کی رپورٹ دکھائیں اور میمورنڈم دکھائیں ، جن چیزوں کا سول جج نے تذکرہ کیا وہ دکھائیں، ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ آپ نے فراڈ کیا ہے، آپ ہم سے ریلیف چاہتے ہیں، ہم زبانی بات نہیں سنیں گے ریکارڈدکھائیں،ہم یہاں وقت نہیں دیتے۔

چیف جسٹس کافیصلہ لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے جج نے ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کو برقراررکھا، ہائی کورٹ نے قراردیا کہ بے بنیاد کیس دائر کیا گیا ۔ عدالت نے 50ہزارروپے جرمانہ بھی عائد کیا جوآج تک ادانہیںکیا گیا۔ عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے فیصلے کی کاپی مدعا علیحان کوبھجوانے کاحکم دیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں