سپریم کورٹ 0

ایک مرتبہ گواہ پیش ہوجائے تووہ دوبارہ پیش نہیں ہوسکتا، دوسری گواہی کی کوئی حیثیت نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

ایک مرتبہ گواہ پیش ہوجائے تووہ دوبارہ پیش نہیں ہوسکتا، دوسری گواہی کی کوئی حیثیت نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

مختلف کیسز کی سماعت کے دوران ریمارکس، درخواست گزارکے خلاف جاری ریکوری کے حوالہ کاروائی پر حکم امتناع جاری

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ایک مرتبہ گواہ پیش ہوجائے تووہ دوبارہ پیش نہیں ہوسکتا،عدالت گواہ کو طلب کرسکتی ہے لیکن درخواست گزار نہیں کہہ سکتا کہ گواہ دوسری مرتبہ آکراُس کے حق میں گواہی دے دے، دوسری گواہی کی کوئی حیثیت نہیں۔ یاتو وکیل پڑھیں یا تقریر کریں ، سمجھ نہیں وکیل کی آواز کون سی ہے اورگواہ کی آواز کون سی ہے۔ عدالت چلانا بڑا مشکل ہو گیا ہے، سپریم کورٹ میں نئی دستاویزات نہیں دیکھتے بلکہ پہلے سے جمع شدہ دستاویزات ہی دیکھی جاتی ہیں۔ مجھے آج تک پتا نہیں چلا کہ کوئی عدالت لوگوں کو بذریعہ ٹیلی فون بھی بلاتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے سوموار کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے پہاڑوں سے آنے والے پانی کے حق استعمال کے حوالہ سے میاں قیامت جان اوردیگر کی جانب سے محمد عزیز اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزاروں کی جانب سے شیر امان یوسفزئی بطور وکیل پیش ہوئے۔وکیل کاکہناتھاکہ تینوں فیصلے میرے خلاف آئے ہیں۔

چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مہربانی کرکے دستاویزات دکھائیے، آپ گواہی مت دو، پڑھ لیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یاتو وکیل پڑھیں یا تقریر کریں ، سمجھ نہیں وکیل کی آواز کون سی ہے اورگواہ کی آواز کون سی۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایگ مرتبہ گواہ پیش ہوجائے تووہ دوبارہ پیش نہیں ہوسکتا،عدالت گواہ کو طلب کرسکتی ہے لیکن درخواست گزار نہیں کہہ سکتا کہ گواہ دوسری مرتبہ آکراُس کے حق میں گواہی دے دے، دوسری گواہی کی کوئی حیثیت نہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے مدعا علیحان کی زمینوں سے پانی آئے اسے درخواست گزار استعمال کریں اوروہ خود استعمال نہ کریں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سب سے پانی کاندراج کس کے نام ہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کاغذ دکھائیں ، ہرچیز زبانی بتاتے ہو۔

جسٹس نعیم اخترافغان کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کا ملکیت کادعویٰ نہیں بلکہ یہ دعویٰ ہے کہ مدعا علیحان کو پانی استعمال کرنے سے روکا جائے۔

چیف جسٹس کاکہناتھا کہ درخواست تینوں عدالتوں سے ہارے ہیں اب ہم کا کریں، جاکرڈکلیئریشن لے لو، کون آپ کوروک رہا ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کاغذدکھایئے ہر چیز زبانی بتاتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ دوسری دفعہ آپ کاکیس چلا رہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ مدعا علیحان کادعویٰ ہے کہ وہ 100سال سے زائد عرصہ سے پانی استعما ل کررہے ہیں۔

عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ بینچ نے چیئرمین پبلک سروس کمیشن ، پشاوراوردیگر کی جانب سے محمدایران کے ملازمت کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔

چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم اکیڈمک ایکسرسائز نہیں کرسکتے، عدالت کیا کہہ رہی سمجھ کیوں نہیں رہے، یہ عدالت اکیڈمک ایکسرسائز نہیں کرتی ہے، وکیل ہمارے سوال کاجواب نہیں دینا چاہتے ہم کیا کریں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 12جولائی 2024کو ملازمت کے حوالہ سے عمر کی بالائی حد میں رعایت دینے کے کیس میں عدالت نے نوٹس لیا تھا اس کیس میں اٹھایا گیا سوال بھی اُسی کیس میں حل ہوجائے گا۔

عدالت نے درخواست نمٹادی۔ بینچ نے ذاکر حسین شاہ اوردیگر کی جانب سے محمد حنیف اوردیگر کے خلاف زمین کی ملکیت کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزارکی جانب سے سینیٹر کامران مرتضیٰ بطور وکیل پیش ہوئے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناکہ تینوں فیصلے آپ کے خلا ف ہیں، یہ عدالت کااختیار ہے کہ وہ پہلی سماعت پر ہی عرضی دعویٰ خارج کرسکتی ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اِس عدالت میں وقت دینے کارواج نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ عرضی دعویٰ ہی قابل سماعت نہیں۔ عدالت نے درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی۔ جبکہ بینچ نے پاک قطر فیملی تقافل لمیٹڈ، کراچی کی جانب سے تسنیم اخترکے خلاف انشورنس کے دعویٰ کے حوالہ سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے برہان لطیف خیسوری بطور وکیل پیش ہوئے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزارنے سالانہ 2لاکھ 4ہزار پریمیم اداکرنا تھااور کل 30لاکھ روپے کی پالیسی کی رقم تھی۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ عدالت چلانا بڑا مشکل ہو گیا ہے، سپریم کورٹ میں نئی دستیاویزات نہیں نہیں دیکھتے بلکہ پہلے سے جمع شدہ دستاویزات ہی دیکھی جاتی ہیں۔ وکیل کاکہناتھا کہ مدعا علیہ کی جانب سے 2016اور2017کا پریمیم جمع نہیں کروایا گیا۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سادہ جنریٹڈ نوٹس ہے، آپ کی اپنی دستاویز ہے اس پر میں جو مرضی لکھ دیں، ٹیکٹ میچ بھیجا ہے توموبائل سے سکرین شارٹ دکھادیں گے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خود کوتباہ کرنا چاہتے ہیں توہم کیا کریں، ادائیگی کریں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مجھے آج تک پتا نہیں چلا کہ کوئی عدالت لوگوں کو بذریعہ ٹیلی فون بھی بلاتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل یہ کیا بات کہہ رہے ہیں میں عدالت کے ساتھ فیئر بات کررہا ہوں، کیا وکیل عدالت کے ساتھ جھوٹ بولیں گے، فیئرکی بات کریں گے تووکیل گھر جائیں ہم درخواست خارج کردیتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ فیئر کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جووقت ضائع کیا ہے اس کاجرمانہ کریں۔ وکیل کاکہناتھا کہ 30لاکھ روپے کاکیس ڈگری ہوا اور 1لاکھ 46ہزارروپے ہم نے اداکردیئے ہیں۔

چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ چوہدری محمد سرورنعیم نے لائف انشورنس پالیسی کروائی تھی۔ مدعاعلیہ کے شوہر دسمبر 2019میں وفات پاگئے، پالیسی کے مطابق مدعا علیہ نے رقم کا مطالبہ کیا۔ درخواست گزار کی جانب سے 2016-17کا پریمیم ادانہ کرنے پر مدعا علیہ کادعویٰ مستردکردیا۔

لاہور ٹربیونل اور پھر لاہور ہائی کورٹ نے مدعا علیہ کی درخواست منظور کرلی۔ انشورنس ٹربیونل نے 30لاکھ روپے پالیسی کی رقم اور دیگر نقصانات کاازالہ کرنے کا بھی حکم دیا جسے ہائی کورٹ نے برقراررکھا۔ زائدالمعیادہونے پر لاہورہائی کورٹ نے درخواست گزارکادعویٰ خارج کردیا۔

چیف جسٹس نے وکیل کوہدایت کی وہ 1لاکھ 46ہزارروپے پریمیم کی ادائیگی کاثبوت اور 30لاکھ روپے کاالگ چیک آئندہ سماعت پر لے کرآئیں۔ عدالت نے درخواست گزارکے خلاف جاری ریکوری کے حوالہ کاروائی پر حکم امتناع جاری کردیا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں