0

ایڈیٹوریل 17 نومبر 2023 حکومت کی طرف سے جنوری 2024 سے گیس کی قیمتیں پھر بڑھانے کا فیصلہ، عوام پر مزید مالی بوجھ اور مشکلات میںاضافے کا باعث ہوگا

ایک خبر کے مطابق حکومت نے جنوری 2024 سے گیس کی قیمتیں پھر بڑھانے کا فیصلہ کر لیا، آئی ایم ایف کو توانائی شعبے کے ٹیرف پر نظرثانی سے آگاہ کر دیا گیا۔اگلے روزنگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ رئیل اسٹیٹ اور ریٹیلرز سمیت مختلف شعبوں پر اضافی ٹیکس لگانے کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا، ایف بی آر کے 9415 ارب روپے کے ٹیکس ہدف کا حصول پہلی ترجیح ہے، اگر ٹیکس محاصل میں کوئی شارٹ فال ہوا تو پھر اضافی اقدامات کا سوچیں گے۔ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ حکومت نے 1.5 ارب ڈالر کا انٹرنیشنل بانڈ کے اجرا کا فیصلہ موخر کر دیا، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد ریٹنگ میں بہتری آئے گی، اس کے بعد بانڈ جاری کرنے پر غور کیا جائے گا۔ نگران وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس مالی سال عالمی بینک سے 2 ارب ڈالر فنڈز ملنے کا امکان ہے، اے ڈی بی، اسلامی ترقیاتی بینک اور ایشیائی انفراسٹرکچر بینک سے بھی مجموعی طور پر 1 ارب ڈالر ملنے کا امکان ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت میں بہتری آئی ہے، مزید بہتری کیلئے بہت کام کی ضرورت ہے، پاکستان کا آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہنا ضروری ہے، اس وقت 3 ارب ڈالر کے پروگرام کی تکمیل ترجیح ہے۔ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ وقت ملا تو آئی ایم ایف سے نئے پروگرام پر بھی بات کی جائے گی، برآمدات میں اضافے اور مقامی وسائل پیدا کرنے تک آئی ایم ایف کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔ہماری رائے میںحکومت کی طرف سے جنوری2024میں گیس کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافے کا فیصلہ عوام کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں بلکہ یہ عوام پر گیس بم گرانے کے مترادف ہوگا کیونکہ عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں اور ایسے میں آئے دن حکومت کی طرف سے کھبی بجلی اور کھبی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا کسی طور بھی عوامی مفاد میں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بلاشبہ اگر عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا اور حکومت کیطرف سے لوگوں کی آمدنی میں اضافے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے جاتے تو عوام یہ بوجھ برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہوتے لیکن موجودہ حالات کے تنا ظر میں اور عوام کی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں۔بلاشبہ ملک کے معاشی حالات اچھے نہیںہیں اور آئی ایم ایف کی طرف سے عائد شرائط پر عمل درآمد کرنا حکومت کی مجبوری ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ تمام بوجھ عوام پر ہی ڈال دیا جائے۔ اس کے برعکس جہاں تک گیس کی سپلائی کی صورتحال ہے تو اس وقت تاریخ کی بد ترین گیس لوڈ شیڈنگ جاری ہے اور یہ لوڈ شیڈنگ گرمی کے موسم سے ہی جاری ہے اور اب جبکہ موسم سرما کا آغاز بھی ہوچکاہے اور اس لوڈ شیڈنگ کی شدت میں مزید اضافہ عوام کی مشکلات بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔ جس طرح بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود لوگوں کو بھاری بھرکم بجلی بلات ارسال کئے جاتے ہیں اس طرح سوئی سدرن اور سوئی نادرن کی طرف سے بھی عوام کو بد ترین لوڈ شیڈنگ کے باوجود گیس کے بھاری بھرکم بلات ارسال کئے جاتے ہیں ۔ایک طرف عوام کو اس نعمت سے محروم رکھا جاتا ہے اور اس پر بلات کی ترسیل بھی باقاعدہ بھرپور انداز میں کی جاتی ہے۔ ہماری رائے میں حکومت کو عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط اور خواہش کو ایک طرف رکھتے ہوئے عوام کے معاشی حالات کو دیکھنا ہوگا۔ ایک طرف حکومت کی طرف سے دعوی کیا جاتا ہے کہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں کمی آئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چند ایک آٹمزکے علاوہ ضرورت کی تمام اشیاء کی قیمتوں میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔بلاشبہ حکومت عوام کی مشکلات پیش نظر رکھتے ہوئے، آئے روز عوام پر بوجھ ڈالنے کی پالیسی سے ہٹ کر دیگر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر سکتی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور مالیاتی اداروں کا سارا روزعوام پر ہی چلتا ہے۔ حکومت اپنے وسائل میں اضافہ ٹیکسوںکے ذریعے بھی کر سکتی ہے ویسے تو سب سے زیادہ ٹیکس، ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کے ذریعے عوام ہی ادا کر تے ہیں جبکہ اس کے برعکس کاروباری دنیا میں محکمہ ٹیکس کی ملی بھگت سے ہزاروں کاروباری ادارے ٹیکس ادا نہیںکر تے۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرکے ٹیکس کی وصولی میں بہتری لائی جاسکتی ہے اس کے لئے ضروری ہوگا کہ موثر اور ٹیکس فرینڈلی ماحول پیدا کیاجائے اور اس حوالے سے خوف کی فضاء ختم کرکے ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کے ذریعے بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہماری رائے میں حکومت کو وسائل بھڑھانے اور آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے عوام پر یوٹیلیٹی بلات میں آئے دن اضافہ کرنے کے رحجان کو ترک کرنا ہوگا کیونکہ عوام موجودہ معاشی حالات میں مزید بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس عوام کی معاشی حالت میں بہتری لانے کے لئے حکومت جس قدر ممکن ہو عوام کو ریلیف مہیا کرئے تاکہ عوام کی قوت خرید میں اضافہ ممکن ہو تاکہ وہ محصولات اور بلات کی ادائیگی بروقت کرنے کی پوزیشن میں ہوسکیں۔ عوام کو خوشحالی اور بہتری کی طرف لے جانے کے لئے ضروری ہوگا کہ حکومت کی طرف سے عوام کی معاشی حالت کو بہتر کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں اور ان پر اضافی بوجھ نہ ڈالنے کی پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے تاکہ عوام کو حقیقی ریلیف میسر ہوسکے، لیکن اس کے برعکس آئے دن یوٹیلیٹی بلات کی مد میں اضافہ عوام کی چیخیںنکالنے کے متراف ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں