0

ایڈیٹوریل 20 نومبر 2023 افغانستان سے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے حوالے سے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا بیان بلاشبہ قومی نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل ہے

اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پروگرام میںاظہار خیال کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ کہ کسی ملک سے پاکستان کیخلاف کارروائیاں قابل برداشت نہیں، ان کا کہنا تھا کہ کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ افغان سرزمین سے پاکستان کیخلاف کارروائیاں کی جائیں اور وہاں کی حکومت تماشہ دیکھتی رہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان کے خلاف کہاں سے کارروائیاں کر رہے ہیں؟ ٹی ٹی پی وسطی ایشیائی ریاستوں میں نہیں بلکہ افغان سرزمین پر موجود ہے اور دو سال قبل جو مذاکرات کا ڈھونگ رچایا گیا تھا تو ٹی ٹی پی کے لوگ کابل میں عملی طور پر ان مذاکرات میں شریک ہوئے تھے۔انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ تمام مکاتب فکر کے علماء نے آرمی چیف کے ساتھ ملاقات میں ٹی ٹی پی سے متعلق موجودہ حکومتی پالیسی کی حمایت کی ہے، اب یہ فیصلہ افغان حکومت نے کرنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو ہمارے حوالے کرنا ہے یا ان کے خلاف خود کارروائی کرنی ہے، تاہم یہ بات قابل برداشت نہیں کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کی جائیں اور افغان حکومت تماشا دیکھتی رہے۔حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان نے ہمیشہ ایک ذمہ دار اور بہترین ہمسایہ ملک ہونے کا کردار ادا کیا جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی، پاکستان نے جس فراخدلی سے افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ دینے کے ساتھ روزگار کے سارے مواقع مہیا کیے اس امر کو عالمی سطح پر سراہا گیا، 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد صرف غیر قانونی افغان باشندوں کا پاکستان سے محفوظ اور باعزت انخلاء یقینی بنایا گیا۔کہا گیا ہے کہ افغان باشندوں کی باعزت طریقے سے افغانستان واپسی کیلئے دیگر اقدامات کے ساتھ ان کی عارضی رہائش کے لئے مختلف اضلاع میں تمام سہولیات سے آراستہ ٹرانزٹ کیمپس قائم کیے گئے ہیں، چمن اور طورخم بارڈر پر روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افغان باشندے اپنے وطن واپس جا رہے ہیں اور پاکستان کی فراخدلی کا شکریہ ادا کر رہے ہیں، غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی ملک بدری سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ہماری رائے میںنگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا دہشت گردی اور سرحد کے اس پار افغانستان سے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گرپوں کی طرف سے پاکستان کو نشانہ بنانے سے متعلق بیان بلا شبہ درست سمت اور حقائق کے مطابق ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ حکومت پاکستان کا افغان حکومت اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ایک پالیسی بیان ہے تو غلط نہ ہوگا۔ بلا شبہ پاکستان نے ہمیشہ اپنے افغان بھائیوں کامشکل کی ہر گھڑی میں پورا خیال رکھا اور جس انداز سے پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کی ہے وہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے اور پاکستان کی اس فراخ دلی کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ افغان طالبان حکومت کو حقائق کے مطابق پاکستان کے تحفظات کا پورا خیال کرتے ہوئے اس مسئلے کا ایک بامقصد حل نکالنا چایئے اور پاکستان کے خلاف نبرد آزما د مطلوب ہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کے سلسلہ میں پاکستان سے بھرپور تعاون کرنا چایئے یا پھر ان مطلوب دہشت گردوں کے خلاف افغان حکومت کو اپنے قانون کے مطابق خد کوئی کاروائی کرنی چایئے جو پاکستان میں آکر دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے ہیں۔ بلاشبہ جیسا کہ نگران وزیر اعظم نے کہا ہے کہ کوئی بھی ملک اپنی سالمیت اور بقاء کے خلاف کسی بھی ملک یا گروہ کو سازش یا دہشت گردی کی اجازت نہیں دے سکتا ،لیکن یہ پاکستان کا صبر اور اعلیٰ ظرفی ہے کہ پاکستان نے اس حوالے سے ہمیشہ غیر جارحانہ انداز اپنایا ہے لیکن پاکستان کے اس طرز عمل کو غلط رنگ دیا گیا۔ بلا شبہ پاکستان اپنی سالمیت ، بقاء اور دفاع کا بھرپور حق رکھتا ہے اور کسی کو اس حوالے کوئی غلط فہمی بھی نہیں ہونی چایئے۔ یہ اب افغان طالبان حکومت کی اخلاقی، عالمی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی پڑوسی ملک خاص طور پاکستان جیسے ملک ،جس نے لاکھوں افغان باشندوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کا ہر طرح سے خیال رکھا اور اور انکو روز گار کے آزادی کے ساتھ بھرپور مواقع فراہم کئے۔ بلا شبہ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے گیند اب افغان طا لبان حکومت کی کورٹ میں ڈال دی ہے ، اب دکھنا ہوگا کہ افغان قیادت پاکستان کے تحفظات اور شکایات کا ازالہ کس انداز میں کرتی ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اب تک کے حالات میں افغان طالبان قیادت کا رویہ مثبت قرار نہیں دیا جاسکتا اور یہ صورتحال کسی طور بھی اچھی علامت نہیں ہے، افغان طالبان قیادت کو اپنے رویے اور کردار پر نظر ثانی کرتے ہوئے حالات کی سنگینی کا ادارک کرنا ہوگا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ افغان قیادت پاکستان حکومت کے جائز تحفظات اور دہشت گردوں کی حوالگی یا ان دہشت گردوں کو افغانستان میں ہی سزا کے عمل سے گزارنے کے حوالے سے مثبت رویے کا اظہار کرے گی تاکہ دونوں برادر اسلامی ہمسایہ ملکوں کے درمیان کشیدگی کا ماحول اور تعلقات میں کوئی ڈرار پیدا نہ ہواور یہی وقت کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں