0

موسمیاتی تبدیلیوں کے مذید خطرات بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر

موسمیاتی تبدیلیوں کے مذید خطرات بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر

نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی معاشی گراوٹ سے اقتصادی منڈیاں شدید مشکلات کا شکار ہوئی ہیں،عبوری حکومت کیلئے ایک امتحان تھا کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے کی تکمیل کی گئی، تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی قرضے کیلئے آئی ایم ایف نے آمادگی ظاہر کی، پاکستان میں مختلف خامیوں کے باعث عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے سختیوں میں اضافہ ہوا،موسمیاتی تبدیلیوں کے جھٹکوں کے باعث مشکلات میں اضافہ ہوا اور اب مذید خطرات بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔ عالمی موسمیاتی کانفرنس کوپ 28 کے حوالے سے امید ہے کہ اس فورم پر پاکستان کی آواز کو سنا جائے گا،

ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ گزشتہ سات دھائیوں سے معاشی مسائل اور ان کا حل تجویز کیا جا رہا ہے مگر تبدیلی نہیں آ سکی ۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مسائل کی حقیقی نشاندہی سے ہی بہتری ممکن ہو سکتی ہے۔جو بہتر مسقبل کی نوید ہو گی۔ اس موقع پر پاکستان میں عالمی بنک کے سربراہ ناجے بین حسنی نے کہا کہ افرادی قوت کا فقدان خاموش طوفان سے کم نہیں کہ خبروں کے مطابق پانچ سال سے کم عمر چالیس فیصد بچے پاکستان میں غزائی قلت کا شکار ہیں۔

انہوں نے مذید کہا پاکستا ن کیلئے مالی مشکلات نئی نہیں ہیں جبکہ عالمی آفات ، کرونا وباجیسی آفات نے اس میں مذید اضافہ کیا ہے ۔ اس موقع پر پاک چین اقتصادی راہداری پر اظہار خیال کرتے ہوئے چینی سفارتخانے کے وانگ سیتا اور چینی کمپنی کے ڈاکٹر ژین ژیونگ اور شکیل رامے ، مصطفے حیدر نے بھی اظہار خیال کیا۔

بعد ازاں کانفرنس کے اختتامی سیشن کے دوران وزیراعظم کے مشیر و پلانگ کمیشن کے ڈپٹی چیئر میں ڈاکٹر محمد جہانزیب خان ، ڈاکٹر عشرت حسین ، ایمبیسیڈر شفقت کاکا خیل اورڈاکٹر وقار احمد کے انعقاد پر روشنی ڈالی اور ایواڈز کا اعلان کیا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور مخدوش صورتحال میں سماجی تحفظ کے نظام کی وجہ سے ملک میں مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان حالات میں پائیدار ترقی کے عالمی اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں کیونکہ پائیدار ترقی کے اہداف افراد کی شمولیت کے بغیر حاصلِ نہیں کئے جا سکتے۔وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے کہا کہ دنیا بھر میں مہنگائی میں مسلسل اضافے کی وجہ روس یوکرائین جنگ ہے جس سے تیل سمیت متعدد اشیاکی قیمتیں تیزی سے اوپر گئی ہیں ۔اس میں پاکستان کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مہنگائی میں اہم کردار مڈل مین کا بھی ہے جو کہ تھوک مارکیٹ اور پرچون مارکیٹ کا پچاس سے ساٹھ فیصد نمایاں تناسب ہے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے بھی ہماری مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔اس موقع پر پرائم انسٹی ٹیوٹ کے علی رحمان نے کہا کہ پاکستان میں آنے والی ہر حکومت بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے تشویش میں مبتلا رہتی ہے۔قیمتوں اور مہنگائی پر قابو پانے کیلئے پالیسیاں اور انتظامی اقدامات سے نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کیلئے مارکیٹ فورسسز کے کردار کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔

وزیراعظم کے سابق مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات و کفایت شعاری ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا ہے کہ ملک میں بہتر گورننس کے مقاصد کے حصول کے لئے کمیونٹی اور نوجوانوں کی ملکیت میں اصلاحات اور پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔وہ یہاں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام 26 ویں پائیدار ترقیاتی کانفرنس میں گورننس اپروچ کے موضوع پر پینل مباحثے سے خطاب کر رہے تھے۔

ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ سول سروس ریفارمز کے تحت قابلیت، قیادت، کیریئر پلاننگ،پروموشن، کارکردگی، ترجیحات اور براہ راست ریٹائرمنٹ پر توجہ مرکوز کرنے والی چھ جہتی حکمت عملی کے ذریعے روایتی سول سروس زیادہ فعال اور ترقی پذیر عالمی رجحانات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔حکومت کی ادارہ جاتی اصلاحات کی رپورٹ 2008پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اصلاحاتی ایجنڈے میں سیکھنے کا عمل اور ترقی کا حصول بھی شامل تھا جس کے لئے مختلف کورسز بنیادی طور پر مڈ کیریئر مینجمنٹ اور دیگر کورسسزمتعارف کرائے گئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں کیریئر پلاننگ کا کوئی تصور نہیں اس لئے کیریئر پلاننگ اور پروموشن متعارف کرائی گئی ۔

انہوں نے واضح کیا کہ ہمارے پاس سرکاری شعبے میں مختلف شعبہ جات کے 20 ہزار ماہرین موجودہیں لیکن ان سب کے پاس کیریئر پلاننگ کا فقدان ہے۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئر مین ڈاکٹر طارق بنوری نے کہا کہ فیصلہ سازی میں مدد دینے والے نظام کوجان بوجھ کر کمزور کیا جاتا ہے جبکہ بیوروکریسی میں تکنیکی مضامین کیلئے تربیت اور مہارت کا فقدان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر حساس عہدوں کے لئے ماہرین موجود ہیں لیکن پاکستان میں ایسانہیںہے کیونکہ ریاست لوگوں کو تربیت نہیں دے رہی۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ نوجوان موجودہ اصلاحاتی پالیسی پر شواہد پر مبنی اصلاحاتی ایجنڈے کو آگے بڑھائیں گے۔قومی سلامتی کے سابق مشیرڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ بہتر گورننس کے حصول کیلئے نفسیاتی رکاوٹ کو دور کرنا ہے کیونکہ تو یا تو قوم ملک کو بہتر بنا سکتی ہے اور یا اشرافیہ کو خوش رکھا جا سکتا ہے بیک وقت دونوں کام ممکن نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ وسائل کی کمی، ادائیگیوں میں مسلسل عدم توازن، اور مثبت معاشی منظرنامے سے دوری نے ملک میں گورننس کے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر عائشہ رزاق نے ابتر نظام تعلیم کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تعلیم کے شعبے میں موثر فیصلہ اور پالیسی سازی کی ضرورت ہے ۔ ترقیاتی امور کے ماہر ڈاکٹر نذیر محمود نے طرز حکمرانی پر تنقید کرتے ہوئے وسائل کو چند ہاتھوں تک محدود کرنے کو پالیسی کی ناکامی قرار دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں