0

ایڈیٹوریل 24 نومبر 2023 صہیونی اسرائیل اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم عالمی امن کے لئے ایک بڑا خطرا ہیں، غزہ میں سسکتی انسانیت کو تحفظ فراہم کرنا تمام امن پسند اور انسان دوست ملکوں کی ذمہ داری ہے۔

اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا تھا کہ پاکستان غزہ میں جنگ بندی کا شدید خواہشمند ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جنگ بندی کے دوران غزہ کو ضروری اشیا کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ان کا کہنا تھا غزہ ایک مقبوضہ علاقہ ہے، نہ صرف غزہ بلکہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں پر بھی اسرائیلی قبضے پر پاکستان سنجیدہ تحفظات رکھتا ہے۔ ترجمان خارجہ کا کہنا تھا کہ قابض فلسطینی علاقوں پر غیر قانونی یہودی بستیاں مسئلہ فلسطین کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، انسانی امداد کی رسائی ممکن بنانے کیلئے غزہ میں جنگ بندی کا شدت سے انتظار ہے۔ ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا تھا کہ ، ہم فلسطین کے 1967 سے پیشگی سرحدوں پر دو ریاستی حل کے حامی ہیں، ایسی فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے اسرائیل سے سفارتی اور اقتصادی تعلقات نہیں ہیں، پاکستان فلسطینی زمین پر اسرائیل کے منصوبے پر سنجیدہ تحفظات رکھتا ہے، ہم یہودی آباد کاری کو غیر قانونی سمجھتے ہیں، یہ غیر قانونی آباد کاری فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کے راستے میں شدید رکاوٹ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امن صرف بات چیت سے ممکن ہے، غزہ میں 6 ہزار سے زائد بچے شہید ہوئے جو کہ غزہ کی آبادی کا 40 فیصد ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ رواں ہفتے میں بچوں کا عالمی دن منایا گیا، غزہ بچوں کے لیے سب سے مشکل جگہ بن چکی ہے۔ہماری رائے میں فلسطین کے حوالے سے ترجمان خارجہ کا بیان، ریاست پاکستان کی مسئلہ فلسطین سے متعلق حقیقی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان روز اول سے دو ریاستی حل کاحامی ہے اور پاکستان آج بھی اس پالیسی پر گامزن ہے۔ یہی وجہ ہے حکومت پاکستان نے اپنے اس اصولی موقف کے باعث آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ بلاشبہ ترجمان خارجہ نے درست کا کہا کہ فلسطینی زمین پر اسرائیل کے منصوبے پر سنجیدہ تحفظات ہیں، اور پاکستان یہودی آباد کاری کو غیر قانونی سمجھتا ہے اور یہ غیر قانونی آباد کاری فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کے راستے میںایک بڑی رکاوٹ ہے۔ بلا شبہ یہ سب درست ہے لیکن صہیونی اسرائیل کی طرف سے موجودہ دہشت گردی اور انسانیت سوز مظالم اور معصوم بچوں اور خواتین کا قتل عام جو ہو رہا ہے اس کے تدارک کے لئے مسلم امہ اور پاکستان کو ایک ٹھوس اور سخت موقف اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا بطور ایک ایٹمی قوت عالم اسلام میں ایک خاص مقام ہے اور فلسطینی عوام اور دیگر کمزور مسلمان آبادیاںپاکستان سے بہت سی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ لہذا پاکستان کو اس حوالے سے ایک لیڈنگ اور کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔امریکہ کی آشیرباد سے صہیونی اسرائیلی فوج جو شیطانی کھیل غزہ میں کھیل رہی ہے ،اگر اس کا فوری تدارک نہ کیا گیا تو تاریخ مسلم امہ اور اس کی قیادت کو کھبی معاف نہیں کرئے گی۔بلاشبہ جنگ و جدل اور قتال کسی بھی مسئلے کا حل نہیں اسوقت تک جیساکہ ترجمان خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں 6 ہزار سے زائد بچے شہید ہوچکے ہیںجو کہ غزہ کی آبادی کا 40 فیصد ہیں، بلا شبہ یہ ایک خوفناک صورتحال ہے کیونکہ اگر صہیونی اسرائیل کا راستہ نہ روکا گیا تو ظالم صہیونی افواج مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھیں گئے۔ غزہ میں یہ ننگ انسانیت کھیل نام نہاد انسانی حقوق کے دعویداروں اور امریکہ کے ماتھے پر ہمشہ ایک کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوگا۔ اس وقت عالم اسلام کے اندر بھی اس درجے کا اتحاد اور یکجہتی نہیں جو وقت کی ضرورت ہے کیونکہ مختلف اسلامی ریاستیں اپنے مفاد کے چکر میں منفقانہ کردار ادا کرہی ہیں۔ لیکن اسلامی امت اور اس کی قیادت کو اس حقیقت کا ادارک ہونا چاہیے کہ اسرائیل کے عزائم صرف فلسطین تک محدود نہیں اس کی گندی نظر پورے مشرق وسطی پر ہے وہ صہیونی گریٹر اسرائیل بنانے کے منصوبے پر عمل کر رہیں ہیں اور بلاشبہ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ جیسے بھارت کے جنوب مشرق ایشیا میں مکروہ توسیع پسندانہ عزائم ہیں اور اکھنڈ بھارت کے خواب کو یقینی بنانے کے لئے بھارت نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ ہماری رائے میں صہیونی اسرائیل اور بھارت دونوںملک عالمی امن کے لئے ایک بڑا خطرا او رستے ہوئے ر ناسور ہیں اور ان دونوں ملکوں کو مغرب اور خاص طور پر امریکہ کی مکمل آشیرباد اور حمایت حاصل ہے۔ ان طاغوتی قوتوں کا راستہ عالم اسلامی صرف اور صرف اتحادسے روک سکتی ہے اور اسی میں امت کی بقاء اور وقار ہے۔ بلاشبہ یہی وقت ہے کہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرایا جائے۔ دنیا اسرائیل کی دہشت گردی کے باعث تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس حوالے سے روس اور چین کا بھی ایک کلیدی کردار ہے اگر آج یہ دو بڑی طاقتیں اسرائیل اور امریکہ کے عزائم کا راستہ نہ روک سکیں تو یہ انسانیت کے ساتھ ایک بڑا مذاق ہوگا اور دنیا کے امن اور سلامتی کو قائم رکھنا نا ممکن ہوجائے گا۔ یہ تمام انسان دوست اور امن پسند ملکوں کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ غزہ میں سسکتی انسانیت کے تحفظ کے لئے صہیونی اسرائیل کا راستہ روکنے کے لئے آگے آئیں اور موثر اقدامات اٹھائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں