بیگم ثمینہ علوی 0

خواتین کا ہر ماہ پانچ منٹ کا خود معائنہ چھاتی کے کینسر کا ابتدائی مرحلے میں پتہ لگانے میں مدد دے سکتا ہے، خاتون اول بیگم ثمینہ علوی

خواتین کا ہر ماہ پانچ منٹ کا خود معائنہ چھاتی کے کینسر کا ابتدائی مرحلے میں پتہ لگانے میں مدد دے سکتا ہے، خاتون اول بیگم ثمینہ علوی

خاتون اول بیگم ثمینہ علوی نے چھاتی کے کینسر، دماغی صحت اور تندرستی کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ خصوصی افراد کو معاشرے کا مفید حصہ بنانے کیلئے ان کے حقوق کی حمایت کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔ وہ جمعہ کو یہاں روٹری کلب کے زیر اہتمام بریسٹ کینسر سے متعلق آگاہی سیمینار سے خطاب کررہی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ان موضوعات پر سال بھر کھل کر بات کی جانی چاہیے، چاہے وہ چھاتی کا کینسر ہو، خصوصی افراد کے حقوق ہو ں یا دماغی صحت کا معاملہ ہو، اس سلسلے میں ہمیں نہ صرف حکومت بلکہ پورے معاشرے کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔خاتون اول نے کہا کہ خواتین کا ہر ماہ پانچ منٹ کا خود معائنہ چھاتی کے کینسر کا ابتدائی مرحلے میں پتہ لگانے میں مدد دے سکتا ہے، اس طرح ملک میں ہزاروں خواتین کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چھاتی کے کینسر کی وجہ سے 44,000 اموات ایک تشویشناک صورتحال ہے جس کے لیے بیماری کی جلد تشخیص کے بارے میں مسلسل آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بیگم ثمینہ علوی نے ذکر کیا کہ دنیا میں مجموعی طور پر چھاتی کے کینسر سے صحت یاب ہونے کی شرح 98 فیصد ہے تاہم پاکستان میں کینسر کا پتہ لگانے کے لئے میموگرافک کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر عمر کی خواتین بشمول 12-14 سال کی نوعمر لڑکیوں میں بھی چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہو رہی ہے۔

انہوں نے خواتین اور لڑکیوں پر زور دیا کہ وہ خود جانچ کے پانچ منٹ کے معمول کو سیکھیں اور اپنے حلقے میں کم از کم 20 دیگر خواتین کے درمیان اس بات کو پھیلائیں۔ انہوں نے تمام شرکا سے ذہنی صحت کی اہمیت اور خصوصی افراد کے حقوق کے لیے پیغام پھیلانے کا عہد بھی لیا۔ انہوں نے کہا کہ دماغی صحت کے حوالے سے ایک موبائل ایپ ہمراز تیار کی جارہی ہے جس کے ذریعے لوگ اپنی ذہنی صحت کے بارے میں رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کل آبادی کا 24 فیصد دماغی صحت کے مسائل کا شکار ہے لیکن متعلقہ ماہرین صحت اور سائیکاٹرسٹ کی تعداد بہت کم ہے جنہیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے خصوصی افراد کو معاشرے میں مرکزی دھارے میں لانے کے لیے تعلیم اور روزگار کی سہولیات فراہم کرنے پر زور دیا۔

آنکولوجسٹ ڈاکٹر فوزیہ نے اس موقع پر بتایا کہ چھاتی کے کینسر کے ایسے 99 فیصد مریض بچ گئے جن کی پہلی سٹیج پر تشخیص ہوئی جبکہ دوسرے سٹیج پر تشخیص ہونے والے مریضوں میں زندہ رہنے کی شرح 95 فیصد اور تیسرے سٹیج پر 86 فیصد رہی۔ انہوں نے کہا کہ چوتھے مرحلے کے مریضوں کے لیے شرح نمایاں طور پر 28 فیصد تک گر گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ سٹیج 4 پر پتہ لگانے کی عالمی شرح 6 فیصد تھی جبکہ پاکستان میں یہ 19 فیصد تھی۔انہوں نے کہا کہ آنکولوجی ٹیم ملک کے کونے کونے میں خواتین تک خود جانچ کا پیغام پہنچانے کے لیے پرعزم ہے۔اس موقع پر روٹری کلب کی جانب سے کینسر سروائیور ماہ رو عارف علی اور پروفیسر شمع سکندر نے بھی بریسٹ کینسر کے بارے میں اپنے تجربات بتائے۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں