حضرت شاہ ہمدانؒ 0

حضرت شاہ ہمدانؒ

تحریر: سید اسرار ہمدانی

حضرت شاہ ہمدانؒ

حضرت شاہ ہمدانؒ کا اصل نام سید علی تھا۔ جناب شاہ ہمدان ؒ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے مشہور شہر ہمدان میں 12رجب المرجب713ھ بمطابق 12اکتوبر1313ء میں ایک دینی و روحانی گھرانہ میں آنکھ مبارک کھولی۔ حسینی سادات سے نسبت رکھنے والے اس جلیل القدر ولی اللہ کا شجرہ مبارک سترہویں (17)پشت پر مولائے کائنات حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ والہٖ وسلم سے جاملتا ہے۔ آپ کے والد گرامی جناب سید شہاب الدین ؒ ہمدان گورنرتھے۔ آپ ؒ کی والدہ ماجدہ کا نام سیدہ فاطمہ ؒ تھا۔آپ کی طبعیت بچپن سے ہی فقر پسند تھی اسی بناء پر آپ دنیاوی جاہ و جلال سے کوئی رغبت نہ رکھتے تھے۔آپ ؒ کی ابتدائی تربیت آپ کے ماموں حضرت علاؤالدولہ سمنانی ؒ نے فرمائی جن کا شمار وقت کے نامی گرامی علماء کرام میں ہوتا تھا اور اس دوران آپ ؒ نے قرآن مجید حفظ کیااور 12برس تک دینی علوم، شریعت و طریقت سے بھی آگہی حاصل کی۔آپ ؒ مجاہدہ نفسی اور چلہ کشی کے لیے ہمدان کی ایک بڑی خانقاہ میں تشریف لے جاتے جہاں حضرت علی دوستی ؒ نے آپ کے کمال شوق اور علوم مرتبت کو دیکھتے ہوئے اشاعت اسلام کے لیے دنیا بھر کا سفر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔شاہ ہمدان ؒ نے اپنی زندگی کا پیشتر حصہ،سافرت میں گذارا اور آپ نے تین بار پوری دنیا کا سفر کیا۔ دوران سفر آپ ؒ نے 1400ولی اللہ ؒ سے شرف ملاقات حاصل کیا اور وقت رخصت ہر ولی کامل ؒ سے اوراد و وظائف حاصل کیے۔

حضرت شاہ ہمدان ؒ فرماتے ہیں کہ ”میں اپنی تصنیف کے لیے سند قبولیت حاصل کرنے کی غرض سے بیت المقدس پہنچا۔ میں مسجد اقصیٰ ہی میں تھا کہ خواب کے عالم میں رسول اللہ صلی اللہ والہٖ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی میں نے دیکھ آپ صلی اللہ والہٖ وسلم میری جانب تشریف لا رہے ہیں، میں اُٹھا اور آگے بڑھ کر سرکارِ دوعالم صلی اللہ والہٖ وسلم کی بارگاہ میں سلام پیش کیا۔ آپ صلی اللہ والہٖ وسلم نے اپنی آستین میں ہاتھ ڈالا اور ایک خنجر نکال کر میری طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا ”خذ ھذا الفتیحۃ”(اس فتیحہ کو لے) میں نے جب نبی آخرزمان صلی اللہ والہٖ وسلم سے وہ فتیحہ لے کر اس پر نظر ڈالی تو وہ یہی وظائف تھے۔

اسی نسبت سے ان کا نام اوراد و فتیحہ رکھا گیا جو سرور کونین ؐ سے سند یافتہ ہیں۔ آپ ؒ نے بااجازت حضور اکرم ؐ مسلمانوں کو انعامگا عطافرمایا اور صبح و شام بالجہر پڑھنے کی اجازت بخشی۔ یہ سچائی، مساوات، بھائی چارے کا راستہ پانے کا پیش بہا خزانہ ہے جس کے مطالعہ سے عقیدہ توحید دلوں میں جاگزیں ہوتا ہے۔ریاست جموں و کشمیر میں آج جو چار سو رونق اسلام ہے وہ آپ ؒ ہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ حضر ت سیلمان علیہ السلام پہلے پیغمبر تھے جو کشمیر میں تشریف لائے تھے انکے بعد اس دھرتی پر نہ تو کوئی نبی آیا نا ولی اللہ۔ یوں ہزاروں سال بعد یہ پورا خطہ ہنومان کے پجاریوں اور کفار کا گڑھ تھا۔ اس بت خانے کو اسلام کی روشنی سے منور کرنے کی سعادت اللہ تبارک و تعالی نے حضرت علی ہمدانی کو عطافرمائی کیونکہ اس کا اشارہ رسول اللہ صلی اللہ والہٖ وسلم نے اسوقت دیا تھا جب مولا علی علیہ السلام مہر نبوت ؐ پر کھڑے ہو کر کعبہ کے اندر نصب بتوں کو گرا رہے تھے۔

اسوقت نبی کریم صلی اللہ والہٖ وسلم نے فرمایا ”کشمیرکے بت خانو تمہارے بت توڑنے والا میرا علی ہو گا اور لوگ اسے علی ثانی کہیں گے”شاہ ہمدانی ؒ تین بار کشمیر تشریف لائے۔ امیر کبیر ؒ کی کشمیر آمد سے قبل سلطان شہاب الدین نے خواب میں دیکھا کہ سور ج جنوب سے طلوع ہو رہا ہے۔ سلطان نے حکماء اور درباریوں سے خواب کی تعبیر پوچھی مگر کوئی بھی تسلی بخش تعبیر نہ بتا سکا۔ سلطان نے ایک راہب سے رجوع کیا۔ راہب نے خواب سن کر بتایا کہ ایک صاحب کشف و کرامات، بلند حسب و نسب ماورائے النہر کی طرف سے آئیں گے اور اسلام پھیلائیں گے۔ جب آپ ؒ نے کشمیر میں قدم رنجہ فرمایا تو ایک برہنہ عورت نے زندگی میں پہلی بارلباس زیب تن کیاجسے آج لوگ للہ عارفہ عارفہ (اپنے وقت کی مشہور شاعرہ)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ تاریخ میں ہے کہ جب للہ عارفہ کی نگاہ آپ ؒ پر پڑھی تو وہ چیختی چلاتی ہوئی لباس کی تلاش میں بھاگی۔ کسی نے استفسار کیا کہ آج کیوں لباس ڈھونڈ رہی تو کہنے لگی کہ آج کشمیر کی سرزمین پر اک مرد قلندرنے قدم رکھا ہے۔

آپ ؒ 700سادات کرام علماء اورصوفیاء کے ہمراہ تبلیغ دین کی غرض سے کشمیر تشریف لائے یہ سلطان شہاب الدین کا دور تھا۔۔ آپؒ کی علمی، روحانی اور انقلابی شخصیت کی بدولت مختصر سی مدت میں ہزاروں افرادنے آپ کے ہاتھوں اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔ آپ نے اپنے ہمراہ کشمیر تشریف لانے والے مبلغین کی معاونت سے سرزمین کشمیر پر ایک ایسا انوکھاانقلاب برپا کیا جس کے مثال تاریخ انسانیت میں کم ہی ملتی ہے اور تاریخ کشمیرمیں اسےBlood Less انقلاب کہا جاتا ہے۔ حضرت شاہ ہمدان ؒ ہمہ گیر شخصیت کے حامل تھے آپ نے نہ صرف اخلاقی، روحانی اور مذہبی اقدار کو فروغ دیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ سماجی اقدار کے فروغ اور مخلوق خدا کی بھلائی کے لیے اقتصادی بھلائی کے لیے بھی بے مثال کام کیا۔ آپ ؒ کے ہمراہ کشمیر تشریف لانے والی شخصیات میں فنکار، دستکار اور انجینئرز کی بھی بہت بڑی تعداد شامل تھی جنہوں نے تبلیغ اسلام کے ساتھ ساتھ زراعت، دستکاری اور صنعت کے میدان میں ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں اور انہی خدمات کی بدولت کشمیر کو آج بھی ایران صغیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

زراعت دستکاری اور ہنرمندی میں کمالِ عروج کے نمونے آج بھی کشمیر میں جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن آپ ؒ کے بعد وقت گذرنے کیساتھ ساتھ رونما ہونے والے تغیر و تبدل کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر علامہ اقبال کو یہ کہنا پڑا کہ!آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و اسیر۔!کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیرشاہ ہمدان ؒ نے کشمیری قوم کو جبر، خوف، جہالت، غربت، ذات پات، اور غیر مساویانہ نظام زندگی سے نجات دلائی۔ یہ وجہ ہے کہ آج کشمیر میں صرف دو مقامات ایسے ہیں جنہیں تاریخ میں مثالی اہمیت اور اعلیٰ مقام حاصل ہے ایک یاد گارتخت حضرت سلیمان ؑ اور دوسری خانقاہ شاہ ہمدان ؒ جو خانقاہ معلی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مبلغ اسلام ہونے کی حیثیت سے آپ ہمیشہ فرقہ وارانہ تعصب اور منافرت سے بالاتر رہے اور آپ کی تعلیمات میں بھی فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔آپؒ کا دل حب محمد ؐ و الہ محمد ؐ میں سرشار تھا آپ فرماتے ہیں کہ اہل بیت کرام عالم اسلام کے درخشندہ ستارے ہیں۔آپ نے مولا علی علیہ اسلام سے اپنی محبت عقیدت اور موودت کا ذکر و اعتراف کرتے ہوئے جا بجا فرمایا ہے کہ مین نہ صرف علی ؑ سے محبت کرتا ہوں بلکہ میں علی ؑ شناس بھی ہوں لیکن ولائے امیر یامعرفت علی ؑ کسی سے مخصوص نہیں۔ شائد ہی کوئی مسلمان ایسا ہو جو جناب علی ؑ سے محبت و عقیدت نہ رکھتا ہو۔ فضائل ومناقب اہل بیت پر آپکی مشہور تصنیف ”مودۃ القربیٰ”ہے۔آپ ؒ کی مشہور تصانیف میں سے زخیرۃ الملوک اور موددۃالقربیٰ کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے،

آپ ؒ کی لا تعدادکرامات میں سے چند کرامات بذیل ہیں!سرزمین کشمیرمیں تبلیغ کے دوران آپ نے ایک مقام پر لوگوں کودعوت اسلام دی تو لوگوں نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا راہب شاہ پور نامی ہے اگر آپ اس پر غالب آ جائیں تو ہم اسلام قبول کر لیں گے۔جب آپ نے شاہ پور کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو شاہ پور جو ننگ دھڑنگ آدمی تھا اور اسکی دونوں آنکھیں دھکتے ہوئے انگاروں کی مانند سرخ تھیں کہنے لگا ”اے سید یہ بتا کہ میرے سامنے جو گائے کھڑی ہے اس کے پیٹ میں نر بچہ ہے یا مادہ اور اسکی رنگت کیا ہے؟ تو شاہ ہمدان ؒ نے فرمایا پہلے تو بتا۔ اس نے کہا کہ اسکے پیٹ میں نر بچہ ہے اور اسکا رنگ سیاہ ہے نیز اسکے ماتھے پر سفید نشان ہے۔ آپ نے فرمایا تم نے غلط کہا اسکے پیٹ میں نہ تو نر بچہ ہے اور نہ ہی اسکے ماتھے پر سفید نشان۔ گائے نے بچہ جنم دیا تو راہب کی تمام پیشن گوئیاں غلط ثابت ہوئیں اور آپ کا فرمان درست ثابت ہوا۔

اس پر بھی وہ نہ مانا اور اپنی شکتی کے بل بوتے پر ہوا میں اڑنے لگا لوگ یہ دیکھ کر ششدر رہ گے۔ آپ نے اپنی جوتیوں ک طرف اشارہ فرمایا تو وہ کبوتروں کی مانند ہوا میں اُڑنے لگیں اور راہب کی سرپر برسنے لگیں اور اسی انداز میں راہب سرکوبی کرتی ہوئی اسکوحضرتشاہ ہمدان کے قدموں میں لا ڈالا۔ راہب نے آپ کے قدموں میں گر کر معافی مانگی اور حلقہ بگوش اسلام ہوا اور اسکا اسلامی نام شاہ محمد رکھا گیا اور اسکے ساتھ ہی اسکے تمام پیروکار بھی شامل حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپؒ کی ایک بہت عظمت والی کرامت یہ ہے کہ آپؒ کے دست مبارک پر ایک دن میں 37ہزار لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ چقچن خپلو (بلتستان) کی ایک مسجد شریف میں آپ ؒ لوگوں کے فیصلے فرمایا کرتے تھے۔ مسجد شریف کے اندر ایک زنجیر ہوا میں معلق تھی۔آپ ؑ کے بعد جب لوگوں کے بیچ کوئی تنازعہ ہوتا تو یہاں کے لوگ زنجیر کو پکڑ کر اپنی بے گناہی کا اقرار کرتے تھے اور جوگناہگار ہوتا اسے خود بخود سزا مل جاتی تھی۔ علاوہ ازیں 40گھروں میں بیک وقت افطار کرنا آپ ؒ کی بہت بڑی کرامت ہے۔کشمیر میں آپ ؒ کی بیٹھک ”خانقاہ معلی”آج بھی اشاعت اسلام کا اہم ترین مرکز ہے یہاں نبی کریم ؐ کے تبرکات بھی موجود ہیں،

جن میں ایک عَلم پاک جسے حضور اکرم ؐ غزوات میں اپنے ہمراہ رکھتے تھے اور امام حسین ؑ یہ عَلم مبارک اپنے ہمراہ کربلا کے میدان میں لے کر تشریف لائے تھے۔ نیز نبی پاک ؐ کے موئے مبارک کی زیارت بھی یہاں ہوتی ہے جائے وصال۔ خانقاہ نوکوٹ مانسہرہ:۔حضرت شاہ ہمدان ؒ 786ھ میں حج کی نیت سے کشمیر سے روانہ ہوئے تو نوکوٹ مانسہرہ کے مقام پر قیام فرمایا اور اسی دوران6ذالحجہ 786ھ کو آپ ؒ کا وصال ہوا۔ مریدین کی خواہش تھی کہ آپ ؒ کی تدفین مقام وصال پر کی جائے کچھ کا صرار تھا کہ آپؒ کی وصیت کے مطابق آپؑ کو روس کے شہر ختلان میں دفن کیا جائے۔ لہذا فیصلہ ہوا کہ جو مریدین تابوت اُٹھا لیں وہی انکی تدفین کریں گے۔ ختلان کے مریدین نے تابوت اٹھا لیا اور حسب فیصلہ میت لے کر ختلان کے لیے روانہ ہوئے۔

نوکوٹ مانسہرہ سے ختلان تک کا سفر تقریباً6ماہ میں اختتام پذیر ہوا اور اتنے طویل سفر کے بعد بھی آپ کے جسم مبارک سے خوشبو آ رہی تھی اور آپ ؒ کے تابوت پر ایک ابر سایہ کیے ساتھ چلتا رہا۔مانسہرہ سے تقریباً 20منٹ کی ڈرائیو پر موضع نوکوٹ میں آپ کی خانقاہ پرآج بھی زائرین کی آمد سارا سال جاری رہتی ہے۔جو ایک بلند و بالا ٹیلے پر واقع قلعے کے اند رہے خانقاہ کی دیوار میں ایک درخت ہے جسکی جڑ کے نیچے سے گذرنے پر بیماری سے شفا نصیب ہوتی ہے اور اس سے ہزاروں زائرین اور عقیدت مندان مستفید ہوتے ہیں۔ تاہم خانقاہ نوکوٹ اپنی نسبتی شان و شایان کے حوالہ سے حکومت پاکستان و آزادکشمیر اور بالخصوص عقیدت مندان کی خصوصی توجہ کی متقاضی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں ایک وسیع و رعریض مسجد شریف کی تعمیر عمل میں لائی جا کر لائبریری کا قیام عمل میں لایا جائے جسمیں آپؒ کی تصانیف، خدمات پر مبنی لٹریچر فراہم کیا جائے تاکہ نہ صرف حضرت شاہ ہمدان ؒ کے مشن کو تا ابدجاری و ساری رکھا جا سکے بلکہ انکی پیدائش اور وصال کے موقع پرمحفل نعت/ عرس /شاہ ہمدان کانفرنس جیسی تقریبات کے انعقاد کے ذریعے نسل انسانی کو بہرہ ور کیا جا سکے۔ ماضی میں اس حوالہ سے جناب جنرل ضیاء الحق (سابق صدر پاکستان و چیف آف آرمی سٹاف) جناب محمد علی (سابق ڈپٹی چیئر مین سینٹ پاکستان)، جناب سرتاج عزیز (سابق وزیر خزانہ پاکستان) جناب سردار عبدالقیوم خان، جناب سردار سکندر حیات خان (سابق صدور/ وزرائے اعظم آزدکشمیر)، جناب صاحبزادہ محمد اسحاق ظفر (سابق قائم مقام صدر و سپیکر آزاد کشمیر)،جناب علی خان چغتائی مر حوم (سابق وزیر تعمیرات عامہ آزادکشمیر) نے جناب حضرت شاہ ہمدان ؒ کی تعلیمات اور خدمات کے اعتراف اور ان سے عقیدت کے طور پر سرکاری سطح پر شاہ ہمدانؒ کانفرنسز کا انعقاد کر کے جو روایت قائم کی تھی اسے جاری و ساری رکھناعصر حاضر کی اہم ضرورت ہے تاکہ عالم اسلام بالخصوص خطہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام امیر کبیر حضرت شاہ ہمدان ؒ کی گراں قدرتعلیمات و خدمات سے کماحقہ آگہی حاصل کرتے ہوئے دین و دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکیں۔

نیز سابق وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر جناب سردار عتیق احمد خان کی جانب سے حضرت امیر کبیر ؒ کی خدمات کے اعتراف میں ”سرسبز ہنرمند کشمیر”کا جوویژن دیا ہے اسے بھی جاری و ساری رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔نیز ماضی میں حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے سرکاری سطح پر اعلان کیا گیا تھا کہ یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر کا نام تبدیل کرتے ہوئے شاہ ہمدانؒ یونیورسٹی رکھا جائے گا اور یونیورسٹی میں باقاعدہ طور پر شاہ ہمدان ؒ چیئر کا قیام عمل میں لایا جائے گا تو اس مضمون کی وساطت سے حضرت شاہ ہمدان ؒ کے لاکھوں عقیدت مندان میں سابق وزارئے اعظم سردار عتیق احمد خان راجہ محمد ٖ فاروق حیدر خاں صا حب سردار تنویر الیاس سابق سپیکر ا سمبلی شاہ غلام قادر صاحب حضرت شاہ ہمدان ؒ کے بہت بڑے مداح اور عقیدت مند بھی ہیں ہم موجودہ حکومت کے وزیر اعظم چوہدری انور االحق سے توقع رکھتے ہیں کہ یونیورسٹی آف آزادجموں وکشمیرکانام حضرت شاہ ہمدان ؒ سے منسوب کرنے کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے سرکاری نوٹفیکیشن جاری فرمائیں گے۔ تاجکستان اور اسکے قربُ جوار کی 12ریاستوں میں آج بھی آپؒ کے عرس کی سالانہ تقریبات مذہبی جوش و جذبہ اور انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منعقد کی جاتی ہیں نیز ان ریاست ہا میں رائج الوقت کرنسی نوٹ پر آپ کی خیالی تصویر موجود ہے۔ ان قوموں میں یہ احساس اچھی طرح جاگزیں ہے کہ انکے اباء واجداد کو جہالت سے نکالنے والی ہستی جناب حضرت امیر کبیر ؒ تھے اور کرنسی نوٹ پر آپؒ کی خیالی تصویر نہ صرف آپؒ کی خدمات کا اعتراف ہے بلکہ ان ریاست ہا کی جانب سے آپؒ کی شخصیت کے ساتھ عقیدت کا مظہر بھی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ دنیائے اسلام پر حضرت امیر کبیر علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدان کے وہ عظیم احسانات ہیں جنہیں قیامت تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت شاہ ہمدان ؒ سے محبت و عقیدت کا اظہار ہر دور میں انکے عقیدتمندوں نے اپنے اپنے انداز میں کیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں