ریڈیو پاکستان 0

ریڈیو پاکستان اور سرکاری خبر رساں ایجنسی کو چلانے کے لئے سیس کی صورت میں عوام پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے

ریڈیو پاکستان اور سرکاری خبر رساں ایجنسی کو چلانے کے لئے سیس کی صورت میں عوام پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے

اگلے روز سینیٹر فوزیہ ارشد کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس پارلیمینٹ ہاؤس میں منعقد ہو۔ حکومت نے ریڈیو اور سرکاری خبررساں ادارے کو چلانے کے لئے ٹیکس وصولی کی تیاری شروع کردی، اس ٹیکس کو سیس کا نام دیا گیا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات ونشریات کو آگاہ کردیا گیا جب کہ ارکان نے نئے ٹیکس نفاذ کی مخالفت کردی۔نگران وزیر اطلاعات و پارلیمانی امور مرتضی سولنگی بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔

اس موقع پر نگران وزیراطلاعات کاکہنا تھا کہ وزارت کے منسلک اداروں کے بہت سے مسائل ہیں ڈمی اخبارات ہیں،ایک ایک بندے کے دس دس اخبار ہیں جو کبھی چھپتے نہیں انھوں نے سیاسی جماعتوں سے ریاستی میڈیا کے لئے اصلاحات طلب کرلیں ارکان نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ ٹی وی چینلز پر کچھ ایسے ڈرامے ہیں جو فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہیں ہیں، ہماری روایات اور اخلاقیات کے خلاف ہیں۔ وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی کا کہنا تھا کہ ریڈیو کے پرانے ٹرانسمیٹر ہیں، سالانہ 60 کروڑ بجلی کا بل ہے، ٹوٹل بجٹ کا 76 فیصد صرف تنخواہوں اور پنشن پر جارہا ہے، اسٹیٹ میڈیا میں سب سے پرانا ادارہ ریڈیو ہے،پینشنرز کی تعداد ملازمین سے زیادہ ہے۔

سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ ساڑھے 12 روپے ریڈیو پاکستان اور اڑھائی روپے اے پی پی کے لئے بجلی بلز سے جمع کرنے کی تجویز ہے،یہ سیس وہیں لگے جہاں سے پی ٹی وی کے لئے جمع ہوتاہے۔سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہا کہ بجلی کے بل سے پہلے ہی لوگ تنگ ہیں، ہر گاڑی کے اندر ریڈیو ہے،فیس کو بجلی کے بل سے نہ جوڑا جائے، اسے بجلی کے بل بجائے گاڑیوں کی طرف لے جائیں،عرفان الحق صدیقی چیئرپرسن نے کہا کہ بجلی بلوں پر اتنے زیادہ احتجاج ہو چکے ہیں،غریبوں پر اور زیادہ نزلہ گرے گا۔

ہماری رائے میں ریڈیو پاکستان اور سرکاری خبررساں ادارے اے پی پی کو چلانے کے لئے نئے ٹیکس کی صورت میں عوام پر بلاوجہ اضافی بوجھ ڈالنا کسی طور بھی درست اقدام نہیں، خاص طور پر جب پہلے ہی بجلی بلوں میں ہوشرباء اضافے کے باعث عوام مشکل حالات سے دوچار ہیں اورپھر آئے روز بجلی اور گیس کے بلوں میں حکومت کی طرف سے اکثر اضافہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے، ایسے میں اس نئے ٹیکس کو بجلی بلوں میں شامل کرنا کوئی اچھی اور مناسب بات نہیں۔ اول تو ان قومی اداورں کو چلانا اور اس کے لئے مناسب بجٹ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے تو حکومت اس مقصد کے لئے اپنے وسائل سے کسی بھی مد میں اضافی اخراجات کو کنٹرول کرکے یہ آمدن ریڈیو پاکستان اور اے پی پی کے لئے حاصل کرسکتی ہے۔

لیکن جس طرح آئی ایم ایف کی طرف سے شرائط کے پیش نظر اور قرض اتارنے کے لئے یوٹیلیٹی بلوں میں ہوشرباء اضافے کر کے عوام کی زندگی کو پہلے ہی اجیرن بنایا گیا ہے اور اب یہ نیا ٹیکس ایک سیس کی صورت میں عوام سے وصول کرنے کی تیاری کوئی اچھا اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے کہ ایک وقت تھا کہ ریڈیو پاکستان جو بلا شبہ ساب پرانا ایک قومی ادارہ ہے مالی طور پر خوشحال اور خود کفیل تھا اور تنخوہواں، پینشن اور دیگر مرعات کا ایک اعلیٰ معیار تھا۔ ملازمین کو تنخواہیں، پنشن اور دیگر مرعات کی ادائیگی برقت کی جاتی تھی۔

لیکن آج صورتحال اس قدر ابتر اور گھمبیر ہوچکی ہے کہ پینشنرز کو کئی کئی ماہ ادائیگی نہیں کی جاتی اسی طرح ملازمین کو علاج معالجہ کی سہولت بھی پہلے کی طرح میسر نہیں۔ اسی طرح قومی خبر رساں ادارے کے معیار کو تباہ کردیا گیا ہے۔سیاسی بنیادوں پر ریکروٹمنٹ اور میرٹ سے ہٹ کر ملازمتوں کی فراہمی نے بھی اس ادارے کو تباہی سے دوچار کردیا ہے۔

اس حوالے سے بلاشبہ سینیٹر عرفان صدیقی کا ستدلال بلکل درست اور حق بجانب ہے کہ بجلی کے بلوں سے پہلے ہی لوگ تنگ ہیں ان کہنا کہ ہر گاڑی کے اندر ریڈیو ہے،فیس کو بجلی کے بل سے نہ جوڑا جائے، اسے بجلی کے بل کی بجائے گاڑیوں کی طرف لے جائیں، سینیٹرعرفان الحق صدیقی کا کہنا تھا کہ بجلی بلوں پر اتنے زیادہ احتجاج ہو چکے ہی لہذاغریبوں پر اور زیادہ نزلہ گرے گا۔ یہ بات اپنی جگہ لیکن اصولی طور پر موجودہ معاشی حالات اور بحرانی صورتحال کے پیش نظر حکومت عوام پر کوئی نیا ٹیکس اور بوجھ نہ ڈالے تو بہتر ہوگا۔ یادرہے کہ گزشتہ تقریبا 40سال سے 35 روپے ٹی وی فیس کی مد میں بجلی بلوں میں شامل کرکے بلاوجہ عوام سے وصول کئے جارہے ہیں۔

عوام پہلے ہی اس اضافی فیس سے نالاں ہیں جو ٹیکس کی شکل میں عوام سے وصول کی جارہی ہے اور اس پر مزید اضافی وصولی عوام کو کسی طور بھی گوارہ نہیں ہوگی۔ ایسے میں جب ٹی وی شائقین کیبل فیس کو صورت میں بھی ماہانہ کئی صد روپے کی فیس کیبل آپریٹرز کو ادا کرتے ہیں تو حکومت کی طرف سے 35 روپے کی فیس کا جاری رہنا ایک اضافی بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔

ہماری رائے میں حکومت اس حوالے سے عوام پر سیس عائد نہ کرئے اور اگر ان قومی اداروں کو چلانے کے لئے فنڈز کی فراہمی یقینی بنانی ضروری ہے تو حکومت کے پاس دیگر کئی ذرائع موجود ہیں جن سے یہ فنڈز حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

ضروری ہوگا کہ حکومت عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے کی پالیسی او روش کو ترک کرئے تاکہ عوام جو پہلے سے ہی مشکل مالی حالات سے دوچار ہیں اور پھر غریب عوام کو ریلیف دینے کی بجائے مزید بوجھ ڈالنا کہاں کی حکمت عملی،ر عقلمندی اور انصاف ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں