فلسطین 0

فلسطینیوں پراسرائیل کی بربریت اورشیطانی کھیل پوری اسلامی امت کے لئے لمحہ فکریہ ہے، آخر کب اسلامی غیرت بیدار ہوگی؟

فلسطینیوں پراسرائیل کی بربریت اورشیطانی کھیل پوری اسلامی امت کے لئے لمحہ فکریہ ہے، آخر کب اسلامی غیرت بیدار ہوگی؟

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ کا ہفتہ وار پریس بریفنگ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان نے ایک بار پھر غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو نہتے فلسطینیوں پر دوبارہ بمباری کے آغاز پر سخت مایوسی ہوئی، عالمی برادری فلسطینیوں پر جاری بمباری روکنے کے لیے کردار ادا کرئے۔اْن کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے ہسپتالوں، عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں پر حملے کیے گئے، پاکستان اسرائیل کے طبی مراکز پر حملوں کی بھی عالمی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے جاری جنگی جرائم پر دنیا کو بات کرنی چاہیے۔یاد رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جاری 7 روزہ جنگ بندی بغیر کسی توسیع کے ختم ہوگئی،عرب میڈیا کے مطابق 7 دن کی جنگ بندی ختم ہوتے ہی اسرائیلی فوج بزدلانہ حملوں میں تیزی لے آئی، صیہونی فوج کی جانب سے رفح،غزہ سٹی، خان یونس، جبالیہ اور شجائیہ کے اطراف بمباری میں 109 نہتے فلسطینی شہید ہو گئے۔ اسرائیلی فوج نے حماس پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر ایک بار پھر غزہ پر فوجی آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔ فلسطینی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ میں حملہ کیا ہے، اسرائیلی فوج نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اور اسرائیلی علاقے کی جانب فائر کیا۔فلسطینی میڈیا کے مطابق غزہ پر اسرائیلی جاسوس طیاروں نے نچلی پروازیں بھی کی ہیں اور شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں گھر کو نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ مختلف علاقوں میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔دریں اثنا ء اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دفتر نے غزہ جنگ میں اپنے اہداف حاصل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی ایتامر بین گویر نے کہا کہ فوج کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ غزہ واپس لوٹنا چاہیے۔انہوں نے پٹی میں واپس جانے اور بنا سمجھوتے، بنا معاہدے کے حماس کو تباہ کرنے کے ارادہ کا بھی اظہار کیا۔یاد رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کا آغاز 24 نومبر سے ہوا تھا جس میں تین مرتبہ توسیع ہوئی اور آج جمعہ کی صبح جنگ بندی کا وقت ختم ہوگیا جس میں کوئی توسیع نہیں کی گئی۔سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے غزہ میں فوجی کارروائیوں کے دوبارہ آغاز پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ہماری رائے میں یہ صورتحال انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت ہے کہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے اسرائیل کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں اور ان کا یہ کردار نا صرف ا ن ملکوں کے دہرے اورمنافقانہ معیار کی نشاندہی کرتا ہے، بلکہ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی ان کے اصل چہرے کو دنیا کے سامنے نقاب کرتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے ہسپتالوں، عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں پر اسرائیلی حملوں کے خلاف عالمی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ بلکل جائز اور اصولی موقف ہے۔ عالمی سطح پر اقوام متحدہ اور عالمی قوتیں پاکستان کے اس مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے اپنا کردار ادا کریں اور اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا کیس بنایا جائے اور اس کے خلاف پابندیاں عائد کیں جائیں۔ بلاشبہ اسلامی ملکوں کی طرف سے شدید رد عمل نہ ہونے کے باعث بھی اسرائیل کو کھلی چھٹی مل گئی ہے کیونکہ اکثرمسلم ممالک کے ان ملکوں حتی کہ اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات اور دیگر مفادات وابستہ ہیں۔ یہ روش ایک خوفناک اور خطرناک صورتحال کا پیش خیمہ ثابت ہوگی کیونکہ اسرائیل اگر فلسطینیوں کو کچلنے میں کامیاب ہو گیا تو اس کا اگلہ کوئی دوسرا مسلم ملک یہ ہوگا۔ ہماری رائے میں دنیا اسرائیل کے عزائم سے بخوبی آگاہ ہے، البتہ ایران اور پاکستان کے حوالے سے اسرائیلی حکمرانوں کے عزائم اور پالیسی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کیونکہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسرائیل ایران اور پاکستان کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ جہاں تک عرب دنیا کا تعلق ہے ان ملکوں کی طرف سے شدید ردعمل کے فقدان کے باعث اسرائیل کو شہ مل رہی ہے۔ اب اگر مسلم ممالک کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں تو بلی تو اپنا کام کرئے گی اور کبوتر کو دبوچ لے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیاوی جاہ و جلال اور اقتدار کے نشے میں اسلامی ملکوں کی قیادت نے قرآن پاک اور نبی برحق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی تعلیمات جو پوری امت کو جسد واحد قرار دیتی ہیں کو نعوذ باللہ جیسے فراموش کر دیا ہو۔ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات سے دوری ہی اسلامی دنیا کے لئے تبائی اور بربادی کا پیغام بن سکتی ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق جس طرح جسم کے کسی حصے میں درد ہو تو تکلیف سارے جسم میں ہوتی ہے اسی طرح کسی بھی خطے یا علاقے میں کوئی بھی مسلمان اگر مشکل میں ہو تو یہ مشکل تمام مسلمانوں کی ہوتی ہے لیکن عملا اہل اسلام تعلیمات اسلامی سے دور نظر آتے ہیں۔ ہماری رائے میں 57اسلامی ملکوں کا فورم او آئی سی اگر ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے اسرائیلی بربریت رکوانے کے لئے آگے آئے اور دنیا کو ایک واضح اور متفقہ پیغام دیں کہ وہ اسرائیل کے وحشیانہ مظالم کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں ورنہ پوری اسلامی امت سرائیلی جارحیت کو روکنے کا خود بندوبست کرے گی تو کوئی وجہ نہیں کہ اسرائیل کے غبارے سے ہوا نہ نکل جائے۔ لیکن اسرائیل جانتا ہے کہ اس کے مربی امریکہ نے پوری اسلامی دنیا کی قیادت کو مفادات اور خوف کے چکر میں جکڑ رکھا ہے اور وہ کسی صورت عملی اقدام کرنے کی جسارت نہیں کرسکتے بلکہ حد تو یہ ہے کہ یواے ای کے علاوہ کئی اسلامی ملک اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے خواہ ہیں اور اگر یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی اس وقت تک کئی مسلم ملک اسرائیل کے ساتھ دوستی کے مضبوط رشتوں میں بندھ چکے ہوتے۔ بلاشبہ اسلامی ملکوں کی قیادت کو اپنی روش میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ فلسطین اور عالم اسلام کو اسرائیل اور اس کے گماشتوں کے مکروہ عزائم سے محفوظ بنایا جاسکیکیونکہ اگر اسرائیل کو کھلی چھٹی دی گئی اور اسے روکا نہ گیا تو پھر دنیا کے امن کو تبائی اور بربادی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں