نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ 0

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک پاکستان اور دیگر متاثر ملکوں کو مالی اور ٹیکنیکی تعاون یقینی بنائیں

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک پاکستان اور دیگر متاثر ملکوں کو مالی اور ٹیکنیکی تعاون یقینی بنائیں
اگلے روز دبئی میں اقوام متحدہ کی 28ویں کانفرنس آف پارٹیز سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے معقول، اضافی اور متوقع گرانٹ کی بنیاد پر موسمیاتی مالیات فراہم کریں۔ نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کلائمیٹ فنانس کے لیے 100 ارب ڈالر کا وعدہ پورا کیا جانا چاہیے اور اس قسم کی گرانٹس ترقیاتی مالیاتی امداد نہ ہو اور نہ ہی ترقی پذیر ممالک کے پہلے ہی بھاری قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہو۔ مگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا کہ ترقی یافتہ ممالک عالمی سطح پر عالمی حدت میں تخفیف کے عزائم کو بڑھانے کی قیادت کریں اور پھر ترقی پذیر ممالک کی بھی مدد کریں۔ نگران وزیر اعظم کاکہنا تھا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا آٹھواں ملک ہے۔نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مشترکہ ذمہ داریوں اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نبردآزما ہوسکتے ہیں، پاکستان کے چیلنجز میں پانی بھی ایک بڑا چیلنج ہے، ماحول اور پانی کے چیلنجز سے متعلق حکومت کی ترجیحات واضح ہیں۔انہوں نے کہا کہ لیونگ انڈس کے تحت سٹیک ہولڈرز سے مل کر کردارادا کرنا ہوگا، لیونگ انڈس ویژن کے باعث ہم اپنے مستقبل کو محفوظ کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف، اے آئی ڈی، کوکا کولا فانڈیشن اور گرین کلائمیٹ فنڈ کا اہم کردار ہے، فلیگ شپ منصوبہ عالمی ماحولیاتی فنانس کے تحت منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں مددگار ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماحولیاتی فنانس سے ہمارے کروڑوں شہریوں کو فائدہ ہوگا اورموسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھاکہ پاکستان کی مستقبل کی ضروریات کیلئے پانی کی دستیابی ایک بڑ ا چیلنج ہے،سندھ طاس کو ماحولیاتی اثرات اور آب وہوا سے ہم آہنگ کرنے کیلئے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیونگ انڈس ایک وسیع اقدام ہے جس کا مقصد پاکستان کی حدود میں سندھ کے ماحولیات کو بحال کرنا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالہ سے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہے کہ ہمیں آئندہ 15 سالوں میں 11سے 17ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ پبلک سیکٹر، پرائیویٹ سیکٹر، شہریوں اور کمیونٹیز کو متحرک کیا جا سکے۔ ہماری رائے میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے درست نشاندہی کرتے ہوئے ترقی یافتہ ملکوں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا کہ وہ کلائمیٹ فنانس کے لیے 100 ارب ڈالر کا وعدہ پورا کریں تاکہ موسمیاتی تغیر سے متاثر ہونے والے ملکوں کے نقصان کا ازالہ ہوسکے۔ بلاشبہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے دنیا کے اکثر ممالک متاثر ہورہے ہیں لیکن اس گلوبل وارمنگ کی بڑی وجہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جس کی وجہ سے پاکستان سمیت بنگلہ دیش، میانمار نیپال، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویت نام زیادہ متاثر ہونے والے ملک ہیں اور پاکستان ان ملکوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے اوراگر یہ کہا جائے کہ صرف پاکستان نہیں پورا جنوبی ایشیا کاخطہ موسمیاتی تبدیلی لی زد میں ہے تو گلط نہ ہوگا۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس 2021سی او پی کا آغاز سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو میں ہو چکا ہے جس کا مقصداس موحولیاتی تبدیلی سے ہونے والے اثرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے2030 تک ضروری اقدامات تجویز کرنا ہے تاکہ قرہ ارض کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچایا جا سکے۔ بلاشبہ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے کہ نیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ انسانی سرگرمیوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ کیا ہے، جو درجہ حرارت کو بڑھاتا ہے۔یاد رہے کہ جرمن واچ نامی عالمی تھنک ٹینک کی جانب جاری کردہ عالمی ماحولیاتی اشاریے میں پاکستان کا شمار دنیا کے ان پانچ ملکوں میں کیا گیا ہے جو سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں۔ دنیا بھر کے موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر دس ممالک کی فہرست میں سے سات ممالک کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہی ہے۔موسمیاتی ماہرین کے مطابق غربت، بیروزگاری، بڑھتی آبادی اور موسموں کے تابع زراعت پر انحصار کے باعث دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں جنوب مشرقی ایشیا اور خاص طور پر جنوبی ایشیا کو زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ گلوبل وارمنگ کے باعث پاکستان اور دیگر متاثر ملکوں کے آبی ذخائر بری طرح متاثر ہورہے ہیں بلکہ ان ملکوں کی زراعت، جنگلات، جنگلی اور آبی حیات بھی بری طرح متاثر ہونے سے ان ملکوں کے وسائل میں بھی کمی واقع ہورہی ہے۔ پاکستان کے گلیشئر اس موسمی تغیر کی وجہ سے پگل رہے ہیں جو آنے والے وقتوں میں خوفناک صورتحال پانی کی شدید قلعت کا ناعث ہوسکتا ہے۔ بلاشبہ ترقی یافتہ ملکوں کو اس ماحولیاتی موسمی تبدیلی کے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لئے عملی اقداماٹ اٹھانے ہونگے تاکہ ان متاثرہ ملکوں کی معیشت اور خاص طور پر قدرتی ماحول کو جو نقصانات ہورہے ہیں اس کا کسی حد تک نا صرف ازالہ ممکن ہوسکے بلکہ اس کے اثرات کو کم کرنے اور قدرتی ماحول کو محفوظ بنانے کے لئے بھی ٹھوس اقدامات یقینی بنائے جاسکیں۔ بلاشبہ اگر اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات اگر نہ اٹھائے گئے تو اگلے چند سالوں میں وطن عزیز پاکستان شدید پانی کے بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس کی جنگلی اور آبی حیات بھی بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی کے کہ عالمی ادارہ اقوام متحدہ ترقی یافتہ ملکوں کو پابند بنائے کہ وہ پاکستان سمیت دیگر متاثرہ ملکوں کی مالی امداد کے علاوہ ٹیکنیکی تعاون بھی یقینی بنائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں