وزیر اعظم آزاد کشمیر--وزیر اعظم پاکستان 0

وزیر اعظم آزاد کشمیر کی ذاتی د لچسبی کے باعث وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر پاسکو کی طرف سے آزادکشمیر کوگندم سپلائی کی بحالی قابل ستائش ہے

وزیر اعظم آزاد کشمیر کی ذاتی د لچسبی کے باعث وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر پاسکو کی طرف سے آزادکشمیر کوگندم سپلائی کی بحالی قابل ستائش ہے

یہ بات آزاد کشمیر کے عوام کے لئے حوصلہ افزاء ہے کہ وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق کی تحریک پر وزیراعظم پاکستان انوارالحق کاکڑ نے آزادکشمیر کی گندم سپلائی بحال کروا دی، وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے پاسکو کو فوری طور پر بلاتعطل گندم کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔چوہدری طیب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق اس سلسلے میں خصوصی اقدامات اٹھارہے ہیں اور اب طے کیاجارہا ہے کہ امیر اور غریب کافرق قائم کرکے سبسڈی صرف غرباء میں تقسیم کی جائے گی اس کیلئے نقد یا آٹے کی صورت میں ہی سبسڈی ملے گی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم آزادکشمیر نے وزیراعظم پاکستان سے قریبی رابطہ قائم کر کے گندم کی سپلائی بحال کروا دی ہے تاہم ساڑھے گیارہ ارب روپے اب بھی بقایا ہیں۔چودریں اثناء آزادکشمیرحکومت نے13ارب بقایا جات میں سے 1ارب40کروڑ روپے پاسکو کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیے ہیں۔سیکرٹری خوراک آزادکشمیر چوہدری رقیب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آزادکشمیر حکومت کے ذمہ پاسکو کی 13ارب روپے کی رقم میں سے 1قسط گزشتہ روز جمع کروا دی گئی ہے۔یہ رقم آزادکشمیر کے عوام کو دی جانے والی سبسڈی کی مد میں ہے جبکہ پاسکو کو گندم کی خریداری کی اصل رقم میں سے جولائی تایکم دسمبر 2023 تک 15ارب روپے ادا کر دئیے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں یہ گندم 43سو روپے من ہے جبکہ آزادکشمیر میں پسا ہوا تیار پیک آٹا عوام کو 31سو روپے من دیا جارہا ہے۔ سیکرٹری خوراک آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ 1200روپے فی من سبسڈی پورے پاکستان میں کسی جگہ نہیں دی جاتی۔ البتہ گلگت بلتستان کی صورتحال مختلف ہے وہاں پچاس سال سے سبسڈی رائج ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آزاد کشمیرنے فیصلہ کیا ہے کہ 63ہزار روپے تک آمدنی والے جملہ متوسط اور مستحق خاندانوں کو سبسڈی دی جائے گی اس کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور محکمہ زکواۃ کاڈیٹا جبکہ نادرہ ڈیٹا بیس بھی مدد گار ثابت ہوگا۔ اس وقت آزادکشمیر کی چالیس لاکھ آبادی میں تین لاکھ چالیس ہزار ایسے خاندان ہیں جن کو سبسڈی دی جاسکتی ہے اور اس پر 4ہزار سے 5ہزار روپے ماہانہ سبسڈی کی مد میں 8ارب 16کروڑ سے زائد کاتخمینہ ہے جبکہ مزید مستحق افراد کو تجدید سروے کے ذریعے شامل کرنے اور ور غیرمستحق افراد کو نکالنے کے بعد بھی زیادہ سے زیادہ یہ 9ارب روپے کی سبسڈی بنے گی،مگر 22ارب روپے سبسڈی و الا طوفان کم از کم آزادحکومت پر نہیں ہوگا۔ ہماری رائے میں وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق کا یہ اقدام بلاشبہ قابل ستائش ہے کہ انہوں نے عوام کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان سے پاسکو کی طرف سے آزاد کشمیر کے لئے گندم کی سپلائی بحال کرو دی تاکہ عوام کو سبسڈائزڈ نرخوں پر گندم کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔ جیسا کہ آزاد کشمیر کے سیکرٹری خوراک چوہدری رقیب کا کہنا تھا کہ 1200روپے فی من سبسڈی پاکستان کے کسی بھی علاقے میں عوام کو فراہم نہیں کی جاتی۔جہاں تک گلگت بلتستان کا تعلق ہے البتہ یہ بات درست ہے کہ وہاں کے عوام کو گندم پر بہت بڑا ریلیف میسر ہے لیکن ابھی چند ماہ سے گلگت میں بھی حکومت نے گندم کی فی کلو قیمت میں کئی گناہ اضافہ کردیا ہے۔ یادرہے پہلے گلگت کے عوام کو 7روپے فی کلو گندم فراہم کی جاتی تھی بعد میں یہ قیمت 20روپی فی کلو مقر کی گئی لیکن حکومت کی طرف سے رعایتی قیمت سبسڈی میں کمی کے باعث گندم کی قیمت میں یہ اضافہ52روپے فی کلو تک ہوگیا ہے۔اس حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام اکثرسراپا احتجاج رہتے ہیں۔ بلاشبہ سیکرٹری خوراک آزاد کشمیر نے درست کہا کہ وزیراعظم آزاد کشمیر چاہتے ہیں کہ گندم پر رعایتی قیمت کا فائدہ غریب اور مستحق افراد کو پہنچے تاکہ زیادہ سے زیادہ غریب اور نادار افراد حکومت کی اس سہولت سے فائدہ اٹھاسکیں۔ ہماری رائے میں حکومت آزاد کشمیرکا یہ فیصلہ صائب اور درست سمت ہے کہ مستحق، نادار اور غریب افرادکو اس سبسڈی کا فائدہ پہنچے اور اس حوالے سے 63ہزار روپے تک آمدنی والے جملہ متوسط اور مستحق خاندانوں کو سبسڈی دینے کا منصوبہ بلاشبہ درست ہے۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق آ ٓزادکشمیر کی چالیس لاکھ آبادی میں تین لاکھ چالیس ہزار ایسے خاندان ہیں جن کو سبسڈی دی جاسکتی ہے تو ایسے میں پوری آبادی کو یہ سہولت فراہم کرنا غلط ہے کیونکہ جب چالیس لاکھ کی آبادی میں ایک بڑا حصہ اضافی قیمت پر آٹا خریدنے کی سکت رکھتا ہے تو ان افراد کو رعایتی نرخوں پر آٹے کی فراہمی کسی طور جائز نہیں اوریہ سہولت صرف اور صرف غریب اور مستحق افراد تک محدود رہنی چایئے تاکہ زیادہ سے زیادہ غریب افراد اس سہولت سے مستفید ہوسکیں۔ البتہ اس حوالے سے صحیح اعدادوشمار کا حصول بھی یقینی بنایا جائے تاکہ کسی مستحق کی حق تلفی نہ ہو۔ سرکاری اعداد وشمار اپنی جگہ لیکن حکومت اور اداروں کو یہ بات اور حقیقت مد نظر رکھنی ہوگی کہ ہوشرباء مہنگائی کے باعث آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے یعنی غربت میں اضافہ ہونے سے رعایتی نرخوں پر آٹا خریدنے والوں کی تعداد میں لامحالہ اضافہ ہوگیا ہے۔بلاشبہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام،محکمہ زکواۃ کاڈیٹا اور اسی طرح نادرہ ڈیٹا بیس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے تاکہ حقیقی اعداد و شمار کی بنا پر غریب اور مستحق افراد کو سبسڈائزڈ گندم یا آٹا فراہم کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو اور غریب اور نادار لوگ ہی اس سہولت سے فائدہ اٹھاسکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں