رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس 0

بلاشبہ قائد کشمیر رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس دو قومی نظریہ کے محافظ، الحاق پاکستان کے مضبوط داعی اور کشمیریوں کے حقوق کے پاسبان تھے، ان کے مشن کو مشعل راہ بنا کر ہی آزادی کا حصول ممکن ہے

بلاشبہ قائد کشمیر رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس دو قومی نظریہ کے محافظ، الحاق پاکستان کے مضبوط داعی اور کشمیریوں کے حقوق کے پاسبان تھے، ان کے مشن کو مشعل راہ بنا کر ہی آزادی کا حصول ممکن ہے

آج کشمیری عوام قائد کشمیررئیس الاحرار چوہدری غلام عباس کی 56 ویں برسی اس عزم اوراعادے کے ساتھ منارہے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب بھارت اپنے ظالمانہ ہتھکنڈوں اور غیر قانونی اقدامات کے باوجود ریاست سے اپنا بوریا بستر گول کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔آج سے53سال پہلے آج ہی کے دن عظیم اور بے لوث کشمیری رہنما قائد کشمیررئیس الاحرار چوہدری غلام عباس خان اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔موقع کی مناسبت سے اپنے پیغام میں وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق کاعظیم کشمیر ی قائد کو بھرپور میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہقائد کشمیر رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس و قومی نظریہ کے محافظ، الحاق پاکستان کے مضبوط داعی اور کشمیریوں کے حقوق کے پاسبان تھے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کہ مرحوم قائد کشمیر پوری کشمیری قوم کے رہنما تھے جنہوں نے اپنی زندگی تحریک آزادی کیلئے وقف کر دی تھی۔ہماری رائے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بدلے ہوئے حالات کے تناظر اور بھارتی حکومت کی طرف سے کئے جانے والے غیر قانونی اقدامات کو رد کرتے ہوئے مرحوم کشمیری رہنما کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ کشمیری عوام اپنی آزادی، الحاق پاکستان کی منزل اور مرحوم قائد کے مشن کے حصول تک بھارت کے خلاف پرامن جدوجہد جاری رکھیں گے۔ قائد کشمیر چوہدری غلام عباس خان ایک بے لوث اور انتہائی ایماندار اور اعلیٰ کردار کے مالک رہنما تھے۔ مرحوم کی پوری زندگی سیاسی جدوجہد اور تحریک آزادی کشمیر سے عبارت ہے۔چوہدری غلام عباس خان 4فروری 1904ء کو جموں کے ایک متوسط خاندان چوہدی نواب خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پرنس آف ویلز کالج جموں سے گریجویشن کرنے کے بعد لاہور سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ قائد کشمیر چوہدی غلام عباس خان کا شمار آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے بانیوں اور قد آور رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی جدجہد ریاست میں ایک سیاسی سماجی تنظیم ”ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن“ کے پلیٹ فارم سے شروع کی۔ یہ فورم 1909ء میں قائم کیا گیا تھا لیکن جب قائد کشمیر نے اس تنظیم میں شرکت کی تو اس پلیٹ فارم کو غیر فعال پایا۔ انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث اس تنظیم کو متحرک اور سرگرم کیا اور بھر پور انداز میں ڈوگرہ شاہی کے خلاف سرگرم ہوگئے اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے عوام میں آزادی کی تڑپ پیدا کرنے اور قابض ڈوگرہ فوجیوں کے خلاف عوام کو متحرک کرنے میں ایک اہم کردار اداکرتے رہے۔1932ء میں شیخ محمد عبداللہ نے جب آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی توان کے بانیوں میں قائد کشمیر چوہدری غلام عباس خان اور دیگر کشمیری رہنماؤں کے علاوہ روزنامہ رہبر کے بانی مرحوم میر نور الدین شاہ اختر کے چچا قاضی عبدالغنی شاہ آف دلنہ بھی سرفہرست تھے۔ شیخ عبداللہ نے جب 1939ء میں مسلم کانفرنس کا نام بد ل کر نیشنل کانفرنس رکھا تو قائد کشمیر نے دیگر زعما جو ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی تھے نے اپنی راہیں شیخ عبداللہ سے جدا کرتے ہوئے 1941ء میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا احیاء کیا۔یہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ہی تھی جس نے رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس خان کی قیادت میں مملکت خداداد پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے صرف تین ہفتے قبل 19جولائی 1947کو سرینگر میں آزاد کشمیر کے بانی صدر مرحوم سردار ابراہیم خان کی رہائش گاہ آبی گزر میں ایک بھرپور قرار داد جو تاریخ میں قرار داد الحاق پاکستان کے نام سے منسوب ہے متفقہ طور پر منظور کی تھی اسی قرارداد میں ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیاگیا تھا۔ ڈوگرہ شاہی نے کشمیری قیادت کے خلاف طرح طرح کے مظالم جاری رکھے دیگر سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ چوہدری غلام عباس خان نے بھی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ لیکن یہ قائدین اپنی منزل پاکستان کے ساتھ جڑے رہے اور جب پاکستان قائم ہوگیا تو 1948ء میں قیدیوں کے تبادلے میں قائد کشمیر بھی پاکستان آگئے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ، قائد کشمیر چوہدری غلام عباس خان کو بہت پسند کرتے اور ان کو اپنا قریبی دست راس سمجھتے تھے، اسی لئے انہوں نے بھارتی حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں قائد کشمیر کی رہائی کو یقینی بنایا۔ پاکستان آنے کے بعدقائد کشمیر 1951ء تک آزاد کشمیرحکومت کے سربراہ رہے اور بعد ازاں انہوں نے حکومتی عہدے سے اپنے آپ کو علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا اور آئندہ کسی حکومتی اور سرکاری عہدے کو نہ لینے کا عہدبھی کیا اور اس پر تادم آخر قائم رہے۔ چوہدری غلام عباس خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے آزاد کشمیر کے بانی صدر سردار محمد ابراہیم خان کے ساتھ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو موثر انداز میں پیش کیا۔ قائد کشمیر رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس خان کشمیر کے حقیقی قائد تھے جنہوں نے قوم کی بے لوث خدمت کی اور اپنی پوری زندگی ایمانداری اور فرض شناسی اور سادگی کے ساتھ بسر کی وہ آزاد کشمیر میں اپنی زندگی کے آخری ایام تک بادشاہ گر تھے ان کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہی آزاد حکومت کی ذمہ داری کسی بھی شخصیت کو سونپی جاتی تھی۔حکومت پاکستان نے قائد کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرنے اور تحریک آزادی کشمیر کے لئے ان کی گرانقدر خدمات کو سرہاتے ہوئے 1995ء میں پاکستان پوسٹ کا یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا۔ قائد کشمیر18دسمبر 1967ء میں اس جہاں فانی سے رخصت ہوگئے۔ مرحوم کو پاکستان سے انتہائی عقیدت اور محبت تھی اور ان کی خواہش بھی تھی کہ ان کو مرنے کے بعد پاکستان میں ہی دفن کیا جائے لہذا ان کی خواہش کے احترام میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع فیض آباد میں مرحوم کو دفن کیا گیا اور یہ تاریخی مقام ہے جہاں ہر سال قائد کشمیر کی برسی کے موقع پر 18دسمبر کے دن سرکاری سطح پر تقریب منعقد ہوتی ہے اورقائد کشمیر کی تحریک آزادی کیلئے جدوجہد اور خدمات کو بھر پور انداز میں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مرحوم قائد کشمیر کے سیاسی مشن اور جذبہ آزادی کو مدنظر رکھ کرہی تحریک آزادی کشمیر کی آبیاری کی جائے اور نئی نسل کو ایسے عظیم رہنماؤں کے افکار سے روشناس کرایا جائے۔بلا شبہ ایسے مخلص اور فرض شناس قائدین کی زندگیوں کو مشعل راہ بنا کر ہی آزادی کی منزل کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں