غزہ 0

بلاشبہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے پیچھے امریکہ اور برطانیہ کی آشیرباد ہے، ضروری ہو گا کہ عالمی امن کو محفوظ بنانے کے لئے اقوام متحدہ کے قواعد وضوبط اور ویٹو پاور استعمال کے طریقہ کار میں میں تبدیلی لائی جائے۔

بلاشبہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے پیچھے امریکہ اور برطانیہ کی آشیرباد ہے، ضروری ہو گا کہ عالمی امن کو محفوظ بنانے کے لئے اقوام متحدہ کے قواعد وضوبط اور ویٹو پاور استعمال کے طریقہ کار میں میں تبدیلی لائی جائے۔

غزہ میں اسرائیلی افواج کی سفاکی اور بربریت جاری، اسرائیلی فضائیہ نے جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی جس کے نتیجے میں مزید 90 فلسطینی شہید جبکہ سینکڑوں زخمی ہوگئے۔خبررساں ادارے کے مطابق غزہ کے جبالیہ کیمپ میں شہاب خاندان کے گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا، اسرائیلی حملے کے نتیجے میں 20 افراد شہید اور 100 زخمی ہوگئے جبکہ گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔اس سے قبل صہیونی فورسز نے خان یونس میں ناصر ہسپتال پر ٹینکوں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 13 سالہ بچی شہید جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔دوسری جانب رفاح میں عمارت پر فضائی حملے میں 4 فلسطینی جام شہادت نوش کر گئے، ادھر مغربی کنارے میں بھی 5 شہری اسرائیلی بربریت کی بھینٹ چڑھ گئے، دونوں حملوں میں متعدد فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں، غزہ کا الشفا ہسپتال مکمل طور پر مریضوں سے بھر گیا، بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔اسرائیلی فورسز نے غزہ کے کمال عدوان ہسپتال کا محاصرہ ختم کردیا تاہم عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے شمالی غزہ میں کمال عدوان ہسپتال کی تباہی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کمال عدوان ہسپتال کے غیرفعال ہونے سے 8 افراد شہید ہوئے ہیں۔دریں اثناء عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل آخر تک جنگ لڑے گا، ہم حماس کے حوالے سے اپنے تمام اہداف حاصل کریں گے بشمول یرغمالیوں کی رہائی کے۔ ہماری رائے میں اسرائیل کی اس دہشت گردی کا اصل روح رواں اور سرگنہ امریکہ اور برطانیہ ہیں، اصولی طور پر ان دو ملکوں کی پشت پنائی ہی عالمی امن اور انسانیت کی تباہی کے لئے بڑا خطرا ہے۔ بلاشبہ جب بھی دنیا میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوگی اور اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا جائے گا تو امریکہ اور برطانیہ کو بھی جنگی جرائم کا مرتکب قرار دلوایا جائے تاکہ ان دونوں ملکوں کے مکروہ عزائم اور اصل چہرے سے نقاب اٹھایا جائے سکے تو یہ عالمی امن اور انسانیت کے لئے بڑی خدمت ہوگی۔ بلاشبہ گزشتہ دس ہفتے سے جاری اس جنگ کے دوران اسرائیل نے قتل و غارت گری کا طوفان برپا کیا ہو ا ہے اور گھروں کو تباہ کر کے لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا ہے، جبکہ 14 دسمبر سے مواصلاتی رابطے بھی منقطع کر دیے گئے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کی اس بربریت پر مغربی ممالک کی خاموشی،منافقانہ رد عمل مجرمانہ فعل اور انسانیت کا قتل عام عالمی امن اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کے اصلی چہروں کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے۔ دریں اثناء اگلے روز عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کا ہفتہ وار دعائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ غزہ پر اسرائیلی حملے جنگ نہیں، دہشت گردی ہے، غزہ سے مسلسل سنگین اور دردناک خبریں آرہی ہیں، نہتے شہریوں کو بموں، گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے، مقدس مقامات کے اندر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ ا سرائیلی فوج کے ہاتھوں مسیحی خواتین کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے ا ن کا کہنا تھا کہ سنائپرز ن سے چرچ میں خاتون اور اس کی بیٹی کو مارا اور دیگر کو زخمی کیا گیا۔دوسری جانب فرانس نے بھی غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشیدگی میں اضافہ ہوا تو مزید نقصان ہو گا، اسرائیلی فوج کے حملوں میں عام شہری بڑی تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں، جنگ سے مسائل حل نہیں ہوتے، تمام فریقین مل بیٹھ کر مسئلے کو حل کریں۔ اس حوالے سے مصری حکام نے دعوی کیا ہے کہ غزہ میں نئی عارضی جنگ بندی کیلئے اسرائیل، قطر اور مصری حکام کے درمیان بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے۔یاد رہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ پر اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 18 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ بلاشبہ یہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی عالمی امن کے لئے ایک مستقل خطرا ہے اگر اسرائیل کو نہ روکا گیاتو دنیا کا امن تہہ وبالا ہوجائے گا اور اس ساری صورتحال کی ذمہ داری اصولی طور پر امریکہ پر عائد ہوگی کیونکہ امریکہ نے ی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لئے پیش کی گئی قرار داد کو ویٹو کرکے اسرائیل کے حوصلے بڑھا ئیں ہیں اوربلاشبہ اس مجرمانہ عمل کا اصل محرک امریکہ ہی ہے اور برطانیہ بھی اس کی پشت پنائی کر رہا ہے جو ایک خوفناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ ہماری رائے میں اگلے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کے لئے پیش کردہ قرارداد منظور ی بلا شبہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ جیسا کہ 193کے ایوان سے 153ارکان نے اس قرارداد کے حق میں اور دس نے مخالفت نے ووٹ دیا جبکہ 30 ملک غیر حاضر رہے۔ بلاشبہ اقوام متحدہ کے فورم پر جنرل اسمبلی کی اپنی اہمیت ہے لیکن اس کے فیصلے دراصل سیکورٹی کونسل کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ سیکورٹی کونسل اس ادارے کا ایک ایسا کلب ہے جو دنیا کے امن اور اس ادارے کے رکن ممالک کی تقدیر کا فیصلہ کرتا ہے اور صرف پانچ بڑی طاقتوں کو جو اس کلب کے رکن ہیں دنیا کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق اور اختیار حاصل ہے۔ ہماری رائے میں عالمی ادارے کی طرف سے اس بڑے فورم سے جنگ بندی سے متعلق قرار داد کا منظور ہونا ایک مثبت پیشرفت اور اس امر کی عکاسی ہے کی عالمی سطح پر ملکوں کی اکثریت فلسطینیوں اور جنگ بندی کے حق میں ہیں، لیکن دوسری طرف سیکورٹی کونسل میں اپنے مفادات کے لئے بڑی طاقتوں کا ویٹوپاور کا استعمال ان کے استحصالی عزائم کو بے نقاب کرتا ہے۔ ہماری رائے میں اگر عالمی برادری عالمی امن کو محفوظ بنانا چاہتی ہے تو ضروری ہوگا کہ اقوام متحدہ کے قواعد وضوبط میں تبدیلی لائی جائے، خاص طور پر ویٹو کے استعمال کا طریقہ کار نئے تقاقوں کے مطابق ڈھالا جائے تاکہ عالمی امن کو لاحق خطرات سے نا صرف بچایا جائے بلکہ ایسے مسائل جو طویل عرصہ سے حل طلب ہیں ان سے متعلق اقوام متحدہ کا نظام متحرک کیا جائے اور اس ادارے کی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے تو اسی صورت بہتری کے امکانات روشن ہیں وگرنہ عالمی امن ایک بار پھر بڑی قوتوں کے مفادات کے باعث تباہی اور بربادی کا شکا ر ہو جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں