آرمی چیف جنرل عاصم منیر 0

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا دورہ امریکہ بلاشبہ اہمیت کا حامل ہے،امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی کو پاکستان،اس خطے کے حالات اور مسئلہ کشمیر کی سنگینی اور اہمیت کے تناظر میں دیکھنا ہوگا

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا دورہ امریکہ بلاشبہ اہمیت کا حامل ہے،امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی کو پاکستان،اس خطے کے حالات اور مسئلہ کشمیر کی سنگینی اور اہمیت کے تناظر میں دیکھنا ہوگا

اگلے روز واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک کے نمائندوں اور میڈیا کیساتھ ملاقاتوں میں گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جزل سید عاصم منیر نے علاقائی سلامتی، بین الاقوامی دہشتگردی پر پاکستان کے نقطہ نظر کو موثر انداز اجاگر کرتے ہوئے بھارت سمیت دنیا پر واضح کیا کہ کشمیر ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے،کوئی یکطرفہ اقدام اس خطے کی حیثیت تبدیل نہیں کرسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان علاقائی استحکام اور عالمی امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کئی دہائیوں سے بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف ایک مددگار کے طور پر کھڑا ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنی پائیدار جنگ میں بے مثال خدمات اور قربانیاں دی ہیں اور پاکستان کے عوام کی امنگوں کے مطابق منطقی انجام تک لڑتا رہے گا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے امریکی تھنک ٹینک کے نمائندوں سے پاک امریکا تعلقات، خطے اور ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے واشنگٹن پہنچنے کے بعد آرمی چیف نے اہم امریکی حکومتی عہدے داروں اور فوجی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں، جن میں امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن، سیکریٹری دفاع لائیڈ جے آسٹن، نائب وزیرِ خارجہ وکٹوریہ نولینڈ، نائب مشیر قومی سلامتی جوناتھن فائنر اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل چارلس کیو براون شامل ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے فلوریڈا میں سینٹ کام مرکزی کمان کے دفتر کے دورے کے موقع پر کمانڈر جنرل مائیکل ایرک سے ملاقات کی۔انہوں نے ایک ہفتے پرمحیط دورہ امریکہ کے آخری مرحلے میں امریکی اسکالرز اور خارجہ پالیسی کے ماہرین سے بھی ملاقاتیں کیں۔ سربراہ پاک فوج نے غزہ میں مصائب کے خاتمے، انسانی امداد کی فراہمی اور خطے میں پائیدار امن کے لیے دو ریاستی حل کے نفاذ کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا۔ہماری رائے میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا دورہ امریکہ بلا شبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس دورے سے بلاشبہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کار میں بہتری آنے کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ آرمی چیف کا امریکی تھنک ٹینکس اور میڈیا کے نمائندوں سے ملاقاتوں میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دوٹوک وضاحت سے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ عالمی برادری کو اس حقیقت کا بخوبی ادارک اور علم ہے کہ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر ایک متازعہ علاقہ ہے اس کا حل اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کی قرادادوں کے مطابق ہونا ابھی باقی ہے۔بلاشبہ بھارت ایک غاصب اور جارح ملک ہے جو ریاست جموں و کشمیر پر کشمیر یوں کی مرضی کے خلاف قابض ہے اور عالمی برادری کے سامنے اپنے کئے گئے وعدے کے باوجود بھارت سیکورٹی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے اور ریاست میں رائے شماری کرانے سے فرار چاہتا ہے، کیونکہ بھارت جانتا ہے کہ کشمیری عوام کسی طور بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں اور نہ ہی گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیریوں نے بھارت کی بالا دستی اور حاکمیت کو کسی طور قبول کیا ہے۔ بے پناہ بھارتی مظالم کے باوجود کشمیری اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور وہ عالمی قوتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب ان کا ضمیر بیدار ہوگا اور وہ کشمیریوں کو ان کا حق آزادی دلوانے کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالیں گئے تاکہ بھارت ہٹ دھرمی ترک کرکے ریاست جموں کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کے لئے تیار ہو جائے۔ ہماری رائے میں آرمی چیف نے موثر اور مدلل انداز میں پاکستان کا مقدمہ امریکی تھنک ٹینکس اور میڈیا کے سامنے رکھا جو پاکستانی موقف کی بھرپور ترجمانی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ کشمیر ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے،کوئی یکطرفہ اقدام اس خطے کی حیثیت تبدیل نہیں کرسکتا، بلاشبہ بھارتی حکومت کے5اگست2019کے اقدام کی واضح نفی ہے اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کی ترجمانی ہے کہ پاکستان بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو کسی طور بھی تسلیم نہیں کرتا اور یہ کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف اور صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے میں ہی پوشیدہ اور عالمی طاقتیں اس حوالے سے اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ہماری دانست میں کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی ایک وجہ عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ کے علاقائی مفادات ہیں، امریکہ نے صرف چین کے خلاف اس خطے میں اپنے مفادات کی خاطر بھارت کو خوش کرنے کے لئے کشمیریوں کے حقوق کو پس پشت ڈال دیا اور بھارت کو اس خطے میں کھلی چھٹی دے دی۔ بلاشبہ بطور ایک عالمی قوت امریکہ کو کسی طور بھی شایاں نہیں کہ وہ کسی قوم کے حقوق کو صرف اپنے علاقائی مفاداتی سیاست کی بھینٹ چھڑا دے۔ ہماری رائے میں امریکہ کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ایک عالمی قوت کے طور یہ امریکہ کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر حق و انصاف کی روشنی اور عالمی قوانین کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرئے تاکہ نہ صرف مسئلہ کشمیر اور فلسطین بھی پر امن طور پر حل ہوں، بلکہ عالمی امن کو لاحق خطرات بھی ختم ہوسیکں۔ بلاشبہ آرمی چیف کا یہ استدلال حقائق پر مبنی ہے کہ پاکستان علاقائی استحکام اور عالمی امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کئی دہائیوں سے بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف ایک مددگار کے طور پر کھڑا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دیں ہیں اور دہشت گردی کے عفریت کو کچلنے میں پاک فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں کے جوانوں نے جو بے مثال قربانیاں دیں ہیں وہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیاہے۔اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ امریکہ پاکستان تعلقات میں سرد مہری کاجو عنصر پایا جاتا ہے اس کی وجہ امریکہ کی طرف سے اس خطے میں بھارت کو کھلی چھٹی اور آشیرباد ہے۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان کی طرف سے امریکہ کوہرطرح کے تعاون کے باوجود امریکہ کی طرف سے ہمیشہ ڈو مور کے تقاضوں اور غیر ضروری دباؤ دونوں ملکوں کے تعلقات میں دوری اور سرد مہری کا باعث بنا۔ ہماری رائے میں امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی کو پاکستان اور اس خطے کے حالات اور مسئلہ کشمیر کی سنگینی اور اہمیت کے تناظر میں دیکھنا ہوگا اور بطور ایک عالمی قوت کے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کے لئے ایک مدد گار کے طور پر سامنے آنا ہوگا لیکن اگر امریکہ کشمیر اور بھارت کے حوالے سے اپنے رویے میں لچک پیدا نہیں کرتا تو دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آنا عبث ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں