محسن نقوی 0

نگران وزیر اعلی پنجاب کی شعبہ صحت کی ترقی میں دلچسبی،ہسپتالوں میں اصلاحات، علاج معالجہ کی سہولتوں کا جائز ہ اورشکایات کی صورت میں فوری اقدامات سے بلاشبہ غریب اور مستحق افراد مستفید ہونگے

نگران وزیر اعلی پنجاب کی شعبہ صحت کی ترقی میں دلچسبی،ہسپتالوں میں اصلاحات، علاج معالجہ کی سہولتوں کا جائز ہ اورشکایات کی صورت میں فوری اقدامات سے بلاشبہ غریب اور مستحق افراد مستفید ہونگے

گزشتہ روز نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی نے چلڈرن ہسپتال لاہور کا اچانک دورہ کیا، مختلف وارڈز میں زیر علاج بچوں کی عیادت کی اور ہسپتال میں علاج معالجہ کی سہولتوں کا جائزہ لیا، زیر علاج بچوں کی ماوئں سے ہسپتال میں فراہم کردہ طبی سہولتوں کے بارے میں دریافت کیا۔محسن نقوی نے ہسپتال انتظامیہ کو زیر علاج بچوں کے علاج معالجے کے حوالے سے ضروری ہدایات دیں۔اس موقع پر مریضوں اور تیمارداروں نے سی ٹی سکین کی رپورٹس تین، تین روز بعد دینے کے حوالے سے شکایات کے انبار لگا دیئے، شکایات کی فوری تصدیق کے بعد وزیراعلی نے موقع پر ایکشن لیتے ہوئے سیکرٹری صحت کو فون کیا۔وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ پنجاب بھر کے ہسپتال 24گھنٹے میں سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی رپورٹس مریضوں کو دینے کے پابند ہوں گے۔محسن نقوی نے مزید کہا کہ سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی رپورٹس تاخیر سے دینے والے ہسپتال کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی ہوگی، نگران وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ رپورٹس میں تاخیر کسی صورت برداشت نہیں کروں گا، رپورٹس کی مریضوں کو بروقت فراہمی کے عمل کو ہر سطح پر مانیٹر کیا جائے گا۔اس موقع پر وزیراعلی محسن نقوی نے ہسپتال میں جاری اپ گریڈیشن کے کام کا بھی معائنہ کیا اور اپ گریڈیشن پراجیکٹ کو جلد مکمل کرنے کے لئے ہدایات دیں، انہوں نے اپ گریڈیشن کے معیار کا بھی جائزہ لیا۔ہماری رائے میں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کا مختلف ہسپتالوں کا دورہ اور غریب مریضوں کے لئے علاج معالجہ کی سہولتوں کا جائزہ لینا اور شکایات کے ازالے کے لئے فوری ہدایات اور اقدامات یقینی بنانا قابل ستائش ہے۔ بلاشبہ سرکاری ہسپتالوں کی جو صورتحال ہے وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ حکمرانوں اور متعلقہ حکام کو ان ہسپتالوں کا اکثر دورہ کرنا چاہئے تاکہ حکومت کو لوگوں کے مسائل سے برقت آگائی کے علاوہ ان ہسپتالوں میں جاری غلط کاروائیوں اور کرپشن سے متعلق بھی معلومات مل سکیں۔ حقیقت میں ہمارے ہاں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے اور غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومت کی طرف غریبوں اور مستحق مریضوں کے علاج معالجے کیے لئے جو وسائل مہیاکئے جاتے ہیں وہ اکثر کرپشن کی نظر ہوجاتے ہیں،غریب اور نادار مریض اپنا علاج کرانے سے قاصر رہتے ہیں کیونکہ ہسپتالوں میں موجود کرپٹ عناصر مریضوں کے لواحقین سے ادویات مارکیٹس سے لانے اور مخلتف ٹیٹس بھی پرائیویٹ لیبارٹریز سے کرانے پر مجبور کرتے ہیں۔ اب جبکہ حکومت نے اکثر سرکاری ہسپتالوں میں سی ٹی سکین اور دیگر ضروری سہولتیں فراہم کی ہوئی ہیں لیکن یہ مافیا ان غریبوں کو بلاوجہ تنگ کرنے کے لئے رپورٹس تین دن بعد دیتا ہے تاکہ ان کو مجبور کیا جائے کہ فوری رپورٹس حاصل کرنے کے لئے باہر سے سی ٹی سکین کرائیں کیونکہ ان عناصر کی کمشن پرائیویٹ اداروں کے ساتھ طے ہوتی ہے، لیکن ان کو زر ابھی ا شرم نہیں آتی اور نہ ہی ان کو خوف خدا ہوتا ہے کہ غریب اور نادار لوگوں کو مشکل میں ڈال کر صرف اپنی کمائی کی فکر میں رہتے ہیں۔ہماری رائے میں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کا ہسپتالو ں کااکثر دورہ کرنا،جاری منصوبوں کی رفتار کا جائزہ لینا،مریضوں کو فراہم کردہ علاج معالجے کی سہولتوں سے متعلق معلومات حاصل کرنا اور شکایات کی صورت میں فوری تدارک کرنا ایک اچھی روش اور قابل تعریف عمل ہے۔ بلاشبہ اگر نگران وزیر اعلیٰ صرف صحت کے شعبے میں اصلاحات اور بہتری لانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور آنے والے حکمرانوں کے لئے ایک مثال سیٹ کرتے ہیں تو مجموعی طور پر اس کا فائدہ غریب اورمستحق مریضوں کو پہنچے گا جن کا کوئی پرسان حال نہیں اورجو پرائیویٹ علاج کرانے کی سکت اور استاعت نہیں رکھتے۔ بلاشبہ نگران وزیر اعلیٰ صحت کے شعبے کی طرف جو خصوصی توجہ دے رہے ہیں اس کے دورس اثرات ضرور مرتب ہونگے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کے وزیر اعلیٰ اپنے احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے موثر مانیٹرنگ کا نظام بھی وضع کریں تاکہ سرخ فیتہ اور کالی بھیڑیں اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کے لئے وزیر اعلیٰ کو سب اچھے کی رپورٹس دیکر معاملات کو یکسو کرتے رہیں۔ بلاشبہ جو لوگ بھی شعبہ صحت اور خاص طور پر ہسپتالوں میں کرپشن میں ملوث پائے جائیں انہیں کسی طور بھی معاف نہ کیا جائے بلکہ ان کو دوسروں کے لئے نشان عبرت بنایا جائے۔ اگر نگران حکومت ایسے ہدف حاصل کرنے اور اس طرح کے فلاح انسانیت کے کاموں کو موثر انداز میں پایا تکمیل تک پہچانے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ ایک اچھی خدمت ہوگی اور آنے والی حکومتوں کے لئے مشعل راہ اور ایک چیلنج ہوگا کہ وہ بھی اپنے فرائض بطور حکمران، نگران وزیر اعلی ٰ کی تقلید کرتے ہوئے بہتر انداز میں ادا کرسیکں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں