آرمی چیف جنرل عاصم منیر 0

وطن عزیز پاکستان کو معاشی عدم استحکام سے نکالنے کے لئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ذاتی کوششیں بلاشبہ لائق تحسین ہیں

وطن عزیز پاکستان کو معاشی عدم استحکام سے نکالنے کے لئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ذاتی کوششیں بلاشبہ لائق تحسین ہیں

یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی ملٹری ڈپلومیسی کے باعث پاکستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہونے کے ساتھ پاکستان پر بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ بھی ختم ہونے کو ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کو جون 2024 تک کل واجب الادا ساڑھے 24 ارب ڈالرز میں سے 12.4 ارب ڈالرز کی ادائیگیوں میں توسیع کی یقین دہانیاں مل چکی ہیں، یہ یقین دہانیاں سعودی عرب، یو اے ای، چین اور قطر کی جانب سے ملی ہیں جبکہ پاکستان رواں مالی سال کے دوران بقیہ ادائیگیوں کا بندوبست کر چکا ہے۔دوسری جانب سعودی عرب، چین اور بیرک گولڈ کارپوریشن کیساتھ ساڑھے 21 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی مفاہمتی یاداشتیں اور معاہدے جبکہ کویت کیساتھ اربوں ڈالرز کے سرمایہ کاری معاہدے آرمی چیف کے عالمی سطح کے اہم اور کامیاب دوروں کے باعث ہی ممکن ہوا ہے۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے عہدہ سنبھالنے کے بعد 13 غیر ملکی دورے کیے اور 17 سے زائد غیر ملکی سفارتکاروں اور سینئر عسکری حکام سے ملاقاتیں کیں، ان دوروں کے دوران پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری، پاکستان کے واجب الادا قرضوں کی ادائیگیوں میں توسیع اور مشترکہ دفاعی معاملات سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت ہوئی۔ بلاشبہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے غیر ملکی دوروں کے نتیجے میں 10 ارب ڈالرز کی چینی سرمایہ کاری، 6 ارب ڈالرز کی سعودی سرمایہ کاری جبکہ بیرک گولڈ کارپوریشن کی جانب سے 5.8 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کیلئے مفاہمتی یاداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کیے گئے، ان ہی دوروں کے دوران پاکستان کو معاشی میدان میں ایک اور بڑی کامیابی ملی جسکے نتیجے میں کویت کیساتھ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے 7 معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے۔ یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے عہدہ سنبھالنے کے بعد جنوری 2023 میں سب سے پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا اسکے بعد جنوری، فروری، جولائی اور نومبرمیں متحدہ عرب امارات کے چار دورے کیے۔ فروری میں برطانیہ، اپریل میں چین، جولائی میں ایران، ستمبر میں ازبکستان، ستمبر میں ترکیہ، نومبر میں آذربائیجان، نومبر میں ہی کویت جبکہ حال ہی میں آرمی چیف نے رواں ماہ دسمبر میں امریکا کا کامیاب دورہ کیا۔ ہماری رائے میں آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد وطن عزیز کی معاشی صورتحال کی بہتری اور ملک کو معاشی عدم استحکام سے نکالنے کے لئے جس انداز میں کوششوں کا آغاز کیا وہ بلا شبہ قابل تعریف ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ عالمی سطح پر پاک فوج کے ادارے اور اس کے سربراہ کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور یہ پاکستانی قوم کے لئے فخر کی بات ہے کہ اس ملک کی افواج کو عالمی سطح پر ایک خاص پزیرائی اور اہم مقام دیا جاتا ہے۔ اس وقت عزیز پاکستان غیر ملکی قرضوں اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ کے باعث معاشی عدم استحکام کاشکار ہے اور اس صورتحال سے صرف دوست ملک ہی نکالنے میں مدگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک چین اور سعودی عرب، یو اے ای، کویت اور دیگر عرب ممالک کا معاملہ ہے ان ملکوں نے مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ان ملکوں کی قیادت پاک آرمی کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق سپہ سالار پاکستان جنرل سید عاصم مینر کی ذاتی کوششوں کے باعث پا کستان کو جون 2024 تک کل واجب الادا ساڑھے 24 ارب ڈالرز میں سے 12.4 ارب ڈالرز کی ادائیگیوں میں توسیع کی یقین دہانیاں مل چکی ہیں اور یہ یقین دہانیاں سعودی عرب، یو اے ای، چین اور قطر کی جانب سے ملی ہیں۔ علاوہ ازیں سعودی عرب، چین اور بیرک گولڈ کارپوریشن کیساتھ ساڑھے 21 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی مفاہمتی یاداشتیں اور معاہدے جبکہ کویت کیساتھ اربوں ڈالرز کے سرمایہ کاری کے معاہدے بلاشبہ ایک اہم اور بڑی کامیابی ہے کیونکہ جب یہ سرمایا کاری اور ان معاہدوں پر عمل درآمد شروع ہوجائے گا وطن عزیز پاکستان میں تعمیر اور ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز شروع ہوجاے گا۔ بیرونی سرمایاکاری سے جہاں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا وہاں ملک سے بیروگاری اور غربت کے خاتمے میں بھی بڑی مدد ملے گی۔ بلاشبہ آرمی چیف عاصم منیر کی کاوششوں کے باعث اگر ملک معاشی عدم استحکام سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کا کریڈت کسی ماہر معاشیات کو نہیں بلکہ آرمی چیف کو جائے گا کہ جن کی کوشش اور محنت کے باعث ملک میں معاشی استحکام کی نئی راہیں کھلنے جارہی ہیں۔ ڈالر کی اڑان کو کنٹرول کرنے اور مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کے لئے آرمی چیف کی کوششیں بھی بلاشبہ ملک میں معاشی بہتری لانے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں