غزہ 0

امریکہ کی آشیرباد سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت عالمی امن کے لئے بڑا خطرا ہے

امریکہ کی آشیرباد سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت عالمی امن کے لئے بڑا خطرا ہے

یہ بات انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے اورظالم صہیونی فوج 7 اکتوبر کے بعد سے اب تک تقریبا 24 ہزار فلسطینیوں کو شہید جبکہ 60 ہزار 582 افراد کو زخمی کر چکی ہے، جنگ کے دوران غزہ میں 18 لاکھ فلسطینی بے گھر ہوگئے ہیں۔یاد رہے کہ ظالم صہیونی فوج نے 24گھنٹوں کے دوران مزید 125 فلسطینی شہید کر دیا۔عرب میڈیا کے مطابق غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں چھاپا مار کارروائیوں کے دوران صیہونی فورسز نے مزید 5 فلسطینیوں کو شہید کر دیا، نابلس اور قلقلیا میں کئی گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کردیا گیا جبکہ صہیونی فوج کئی نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر اپنے ساتھ لے گئی۔اسرائیلی فوج کی جانب سے کی گئی بمباری سے صحافی یزان الزویدی جاں بحق ہوگئے،یا د رہے کہ درندہ صفت اسرائیلی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے صحافیوں کی تعداد 82 ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ 48 گھنٹوں سے انٹرنیٹ اور ٹیلیفون سروس معطل، ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے حکام کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی بحالی کیلئے کام کرنے والے ان کے 2 ملازمین کو بھی گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا ہے۔عدریں اثناء اقوام متحدہ نے غزہ جنگ کے 100 دنوں کو منقسم انسانیت پر دھبا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ رواں برس کے آغاز سے انسانی امداد کی رسائی کے معاملے پر اسرائیلی پابندیوں میں اضافہ ہوگیا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق طے شدہ امداد میں سے اب تک صرف 21 فیصد انسانی امداد غزہ بھیجی جا سکی ہے۔ ہماری رائے میں ظالم صہیونی افواج کی طرف سے جاری مظالم اور فلسطینیوں کا قتل عام نہ صرف انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکداروں اوربے حس اسلامی ملکوں قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چایئے تھی لیکن امریکہ کی آشیرباد سے صہیونی افواج آئے دن نہتے فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ تیز کر رہی ہے جس کی وجہ سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بلاشبہ اسرائیل کو جو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے اس کی وجہ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اورعالمی طاقتوں کی دوہری اور دوغلی پالیسی کا ہی شاخسانہ ہے۔ ہماری رائے میں اس ساری صورتحال کی ذمہ داری امریکہ، خاص طور پر امریکی صدر جو بائیڈن پر عائد ہوتی ہے۔ بلا شبہ عالمی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی عالمی امن جنگ عظیم میں تبدیل ہوا اس کے پیچھے امریکہ کا ہی ہاتھ رہا ہے۔ لیگ آف نیشنز ہو یا آج کی اقوام متحدہ ہو ان دونوں عالمی اداروں پر امریکہ کی اجارہ داری رہی اور امریکہ دنیا پر اپنی مرضی ٹھونپنے کے لئے ہمیشہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے آیا ہے جس کی وجہ سے دنیا کو پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے واستہ پڑا۔ امریکہ اپنے ملک کو دنیا پر سوار کرنے کے لئے دنیا کے وسائل پر قبضہ کی خواہش رکھتا ہے۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مشرق وسطی کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے امریکہ نے عربوں کو آپس میں لڑایا اور کویت قبضے کو ختم کرانے کے پردے میں عرب سرزمین پر قدم جما لئے اور آج تک امریکہ عرب سرمین پر بیٹھا عرب وسائل کو شیر مادر کی لوٹ رہا ہے۔ بلاشبہ امریکہ اپنے اہداف کو اس خطے میں حاصل کرنے کے لئے مشرق وسطی میں صہیونی اسرائیل اور جنوبی اشیاء میں بھارت کے توسیع پسندانہ کی حوصلہ افزائی کررہا ہے کیونکہ امریکہ عالمی امن کے بجائے بلکہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس کے لئے پوری دنیا تبائی اور بربادی کا شکار ہوجائے۔ فلسطین میں اسرائیل کی غیر انسانی کاروائیوں کے 82صحافیوں کی شہادت اور ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کی شہادت عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکداروں اور سلامی ملکوں کی قیادت کے چہرے پر بد نما داغ ہے اور بلا شبہ اس غفلت کا آخر کار عالمی طاقتوں اور اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کو حساب دینا ہی پڑئے گا۔ فلیسطین کی موجودہ صورتحال بلاشبہ انتہائی تشویشناک ہے۔ لیکن اس صورتحال کے خلاف انسانی حقوق کا احترام کرنے والی اقوام آج بھی دنیا میں فلسطینیوں کے حق کے لئے مختلف ملکوں میں احتجاج کر رہی ہیں جوبلا شبہ اپنے مفادات کیلئے عالمی امن کا نام لینے والی قوتوں اور اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں