انوار الحق کاکڑ 0

بلاشبہ عالمی ہیلتھ سکیورٹی موجودہ دور کاایک بہت بڑاچیلنج ہے،عالمی ادارہ اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ ممالک غریب اور ترقی پزیر ملکوں کو معاشی بحران اور مشکلات سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں

بلاشبہ عالمی ہیلتھ سکیورٹی موجودہ دور کاایک بہت بڑاچیلنج ہے،عالمی ادارہ اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ ممالک غریب اور ترقی پزیر ملکوں کو معاشی بحران اور مشکلات سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں

اگلے روز عالمی ہیلتھ سکیورٹی سمٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ وبائی امراض کے تدارک کے لئے موثر مضبوط اور مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، صحت سے متعلق اندرونی وبیرونی چیلنجزسے نمٹنا ہو گا، ان کہنا تھا کہ نظام صحت کی بہتری کے لئے مانیٹرنگ بہت ضروری ہے، پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدیدنقصان کاسامنا کرنا پڑا ہے، تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کو صحت مند اور محفوظ ماحول فراہم کریں۔عالمی ہیلتھ سکیورٹی موجودہ دور کاایک بہت بڑاچیلنج ہے۔ یہ سمٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی بھی ملک کا صحت کا شعبہ دنیا بھر سے جڑاہوا ہے۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آبادی میں اضافے، شہروں کی طرف تیزی سے نقل مکانی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے چیلنجوں سے تنہا نہیں نمٹا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ کوویدڈ۔19، موسمیاتی تبدیلیوں سے پیداہونیوالے امراض اور 2022 میں پاکستان میں آنے والے شدید سیلاب جیسے مسائل سے ہمارے شہریوں کی صحت شدید متاثر ہوئی اور ان کے سماجی اور معاشی اثرات مرتب ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وائرس کی کوئی سر حد نہیں ہوتی ہے۔اقوام عالم کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے مربوط حکمت تشکیل دی جارہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے پاس تو اس طرح کی کسی بھی صورتحال سے نمٹنے اور بروقت اقدامات کے لئے وسائل ہوتے ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک کے لئے بھی ایسا نظام ہونا چاہیے کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں صحت کانظام کمزور ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کورونا سے دنیا میں معاشی عدم استحکام آیا۔ہمیں اپنے صحت کے نظام اور پالیسیوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کو اثرات کو مد نظر رکھ کر ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی مشترکہ ذمہ داری ہے جو سب سے مل کر کام کرنے کی متقاضی ہے۔پاکستان میں موسمیاتی ناانصافی کی وجہ سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں اور 17 ہزار افراد کی جانیں ضائع ہوئی ہیں جبکہ 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔اس لئے موسمیاتی انصاف اور مساوات پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے۔بلاشبہ پہلی عالمی ہیلتھ سکیورٹی سمٹ کی افتتاحی تقریب کا پاکستان میں انعقاد ہونا ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ہماری رائے میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا صحت اور عالمی سطح پر وبائی امراض کے پھیلاؤ کے حوالے سے کہنا بلکل درست ہے کہ وبائی امراض کے تدارک کے لئے عالمی سطح پر موثر، مضبوط اور مشترکہ اقدامات وقت کی عین ضرورت ہے تاکہ ان بیماریوں کی روک تھام کے لئے ترقی یافتہ اور امیر ممالک غریب اور ترقی پزیر ملکوں کی مدد کے لئے آگے آئیں۔ بلاشبہ پاکستان کو موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث شدیدنقصان کاسامنا ہے اور پھر کرونا وباء اور سیلاب کے باعث بھی پاکستان کی معاشی صورتحال مشکلات کا شکار ہوئی۔ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے درست کا کہا کہ وائرس کی کوئی سر حد نہیں ہوتی یہ بلاشبہ سرحدی قیود سے آزاد ہوتا ہے کوئی ملک غریب ہو یا امیر بیماری کا وائرس اس سے مبرا ہوکر تبائی مچاتا ہے اس کا تجربہ 2019 میں جب کرونا وائرس پھیلا تھا اس کا تجربہ دیھکنے میں آیا اس وائرس نے امریکہ، برطانیہ اور دیگر امیر ملکوں میں تبائی مچا دی اموات میں اضافہ بھی ترقی یافتہ ملکوں میں دیکھا گیا۔بلاشبہ جہاں اکثر ملکوں کو موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی کا عالمی سطح پر سامنا ہے وہاں دنیا میں نقل مکانی کا بڑھتا ہوا رحجان بھی ان مشکلات میں اضافے کا باعث ہے لیکن جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے پاکستان میں دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کا سلسلہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس سے شہروں میں وسائل اور مکانیت کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ا س نقل مکانی کے باعث زراعت کا شعبہ بھی پاکستان میں بری طرح متاثر ہوا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا اس وقت ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے نہ صرف کسی بھی ملک کا صحت کا شعبہ دنیا بھر سے جڑاہوا بلکہ دیگر کئی شعبے بھی ملکوں کے درمیان جڑئے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ2019میں دنیا نے ہیلتھ سیکیورٹی کے حوالے سے کرونا وباء کے باعث کافی نقصان اکثر ملکوں کی منعاشی صورتحال بھی بیر طرح متاثر ہوئی۔ پاکستان کے معاشی حالات عدم استحکام کا شکار ہوئے جس کی ایک بڑی وجہ 2022میں ملک میں بد ترین سیلاب بھی جس میں اربوں روپے کے مالی نقصان کے علاوہ بڑئے پیمانے پر جانی نقصان بھی پاکستان کو برداشت کرنا پڑا۔ کروڑوں افراد بے گھر ہوئے۔ بلاشبہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے ادارے نے معاونت کی،لیکن پاکستان کو آفات سماوی، وبائی امراض، نقل مکانی،موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث بہت بڑئے نقصان کا سامان کرنا پڑا جس سے پاکستان معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا اور آج تک پاکستان کی معیشت سنبھل نہ سکی۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے اور عالمی برادری کی یہ اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان اور دیگر ترقی پزیر ممالک کی مدد اور ان ممالک کو معاشی بحران سے نکالنے بلکہ ان ملکوں کے صحت شعبے کے لئے بھرپور تعاون کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں تاکہ تمام ممالک کی مد داور تعاون سے عالمی سطح پر ہیلتھ سیکیورٹی کے مسائل بہتر انداز میں حل ہوں اور دنیا کو وباؤں، بیماریوں اور آفات سماوی جیسی مشکلات سے محفوظ بنایا جاسکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں