آرمی چیف 0

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے درست کہا ہے کہ پاکستان اور چین علاقائی امن، استحکام اورعوام کی خوشحالی کے مشترکہ مقاصد کے لئے کوشاں ہیں

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے درست کہا ہے کہ پاکستان اور چین علاقائی امن، استحکام اورعوام کی خوشحالی کے مشترکہ مقاصد کے لئے کوشاں ہیں

اگلے روز چین کے نائب وزیر خارجہ سن ویڈونگ نے جی ایچ کیو کا دورہ کیا اور آ ٓرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آرکے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چین کے نائب وزیر خارجہ سن ویڈونگ کی ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، ملاقات میں دفاع کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر بھی غور کیا گیا۔ اس،وقع پر چینی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور چین آزمائے ہوئے اہم شراکت دار ہیں، پاکستان کی علاقائی امن اور استحکام کے لئے کوششیں قابل تحسین ہیں، سی پیک منصوبوں کے لئے حفاظتی انتظامات تسلی بخش ہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے چین کے نائب وزیر خارجہ کے موقف کو سراہا۔ ہماری رائے میں چینی نائب وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان اور آرمی چیف سید عاصم منیر سے ملاقات اہمیت کی حامل ہے۔بلاشبہ چین پاکستان کا ایک قابل اعتماد اور ہر مشکل گھڑی کا دوست ملک ہے،کیونکہ چین نے ہر مشکل وقت میں ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور مضبوط دفاع کا حامی ہے۔ ہماری رائے میں وطن عزیز پاکستان اس وقت جس مشکل سے گزر ہا ہے اور جو معاشی مسائل ہمیں درپیش ہیں اور جس انداز سے آئی ایم ایف اور دیگر قرض دینے والے ادارے پاکستان کو قرضوں کی دلدل میں دکھیلاناچاہتے ہیں ان حالات کے تناظر میں چین اور دیگر دوست ممالک بشمول سعودی عرب، یو اے ای اورترکیہ،پاکستان کو ان مشکلات سے نکالنے میں امید کی ایک کرن ہیں۔ خاص طور پر چین کا سی پیک منصوبہ جو نا صرف پاکستان اور چین بلکہ اس خطے کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ سی پیک منصوبے کی تکمیل اور کامیابی درحقیقت پاکستان کی کامیابی ہے اور اس اہم منصوبے سے پاکستان کا معاشی استحکام اور ترقی مربوط ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان دشمن قوتیں اس منصوبے کو ثبوتاژ کرنے کے در پر ہیں۔ بلاشبہ چین اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ دفاعی طور پر مضبوط پاکستا ن اس خطے کے امن اور خوشحالی کا ضامن ہے لہذا چین پاکستان کی معیشت اور دفاع کو بھی مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔سی پیک منصوبے کو ثبوتاژ کرنے کے لئے بھارت پاکستان میں دہشت گردی اور امن عامہ کی صورتحال پیدا کرنے کی سازشوں میں شروع دن سے ہی مصروف ہے، لیکن بھارت اور دیگر پاکستان دشمن طاقتوں کے مکرہ عزائم کو پاک آرمی اور ہماری سیکورٹی فورسزنے اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر ناکام اور دہشت گردوں کو نشان عبرت بنایا اور دہشت گردی کے عفریت کو کچل دیا۔ چین کی قیادت کو اس حقیقت کا بھی ادارک ہے پاک فوج کا کردار دہشت گردی کے خلاف اور سی پیک منصوبے کو محفوظ بنانے میں نمایاں رہا ہے۔ ہماری رائے میں پاکستان کو سی پیک منصوبے کی تکمیل اور گوادر پورٹ کو باقاعدہ متحرک اور فعال کرنے میں مذید تیزی دورکار ہے اور چین بھی اس میگا پروجیکٹ میں اپنی سرمایا کاری کے ساتھ اپنے اہل کاروں اور انجینئرز کی سلامتی کو یقینی بنانا چاہتا ہے اور چین کی یہ خواہش ہوگی کہ سی پیک اور اس سے جڑئے تمام منصوبے جلد پایہ تکمیل کو پہنچے اور بلاشبہ پاک آرمی اور سیکورٹی اداروں کا اس حوالے سے ایک اہم اور کلیدی کردار ہے جوقابل ستائش ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سی پیک اور پاک چین تعلقات کا زیادہ بخار اور پیٹ درد امریکہ کو ہے کیونکہ امریکہ اس خطے میں چین کے اثر رسوخ اور مضبوط قدم دیکھ کر خوف ذدہ ہوگیا ہے، لہذا سی پیک کو ثبوتاژ کرنے اور پاکستان کے لئے عالمی سطح پر مشکلات پیدا کرنے اور خاص طور پرپاکستان کو آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں جکڑ کر رکھنے کے لیے امریکہ ڈبل گیم کر رہا ہے۔ اس وقت پاکستان معاشی بحران کے باعث بری طرح عالمی مالیاتی ادارے کے چنگل میں ہے اور یہ ادارہ پاکستان کو اپنی شرائط میں جکڑ کر امریکی عزائم کی تکمیل کے لیے ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز پاکستان جس قدر جلد ممکن ہو آئی ایم ایف کے چکر سے نکل جائے تو بہتر ہے۔یہ بات پاکستان کے لئے بلاشبہ تشویش کا باعث ہے کہ اگلے روز عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو درپیش بیرونی فنانسنگ کے بلند خطرات کی نشاندہی کی ہے، جبکہ حکومت نے آئی ایم ایف کو بیرونی فنانسنگ کے انتظامات کی یقین دہانی کرائی ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کو اگلے 3 سال میں 71 ارب 88 کروڑ ڈالر کی بیرونی فنانسنگ درکار ہے۔پورٹ کے مطابق صرف رواں مالی سال 24ارب 96 کروڑ ڈالر کی بیرونی فنڈنگ درکار ہے جبکہ 2025میں میں 22ارب 24کروڑ ڈالر، 2026میں بھی 24کروڑ 67لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے۔ ایسے میں جب پاکستان پہلے ہی عالمی مالیاتی ادارے کے قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے مزید قرضوں کا بوجھ بلاشبہ پاکستان کی معیشت کے لئے ایک خطرے سے کم نہیں۔ ہمارئے معاشی ماہرین وطن عزیز کو عالمی مالیاتی ادارے اور دیگر بیرونی قرضوں کے بوجھ سے نکالنے کے لئے ایک مربوط پالیسی اپنائی اور،سب سے بڑھ کر جس قدر جلدممکن ہو سکے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کے لیے چین، سعودی عرب،ترکیہ یو اے ای او دیگرر دوست ملکوں کی مدد سے اس گورکھ دندھے سے باہر نکل جائے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ ہمارے معاشی فیصلے، ٹیکس پالیسی اور عوام پر بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بھی عالمی مالیاتی ادارے کی مرضی کا متقاضی لگتا ہے۔ بلاشبہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے مقتدر اور پالیسی ساز ادارے وطن عزیز کی سالمیت اور بقاء کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ملک معیشت میں سدھار لانے کے لیے موثر اور ٹھوس اقدامات اٹھائیں تو ملک معاشی استحکام اور بہتری کی طرف گامزن ہوسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں