iran-pak 0

صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا کہ ایران پاکستان کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کی ترقی تہران کی ترجیح ہے، موجودہ حالات کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا کہ ایران پاکستان کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کی ترقی تہران کی ترجیح ہے، موجودہ حالات کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا تہران میں پاکستان کے سفیر مدثر ٹیپو سے ملاقات کے دوران یہ کہنا کہ ایران پاکستان کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتا ہے اور یہ کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کی ترقی تہران کی ترجیح ہے،بلا شبہ موجودہ حالات کے تناظر میں ایرانی صدر کا بیا ن انتہائی اہمیت کا حامل اور مثبت بات ہے۔ایران کے صدرابراہیم رئیسی نے ایران میں 9 پاکستانیوں کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تہران پاکستان کے ساتھ ہم آہنگی اور اچھے ہمسائیگی پر مبنی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان کہنا تھا کہ، ہمیں پاکستان کے ساتھ بدامنی پھیلانے کے بجائے امن کو فروغ دینا اور کشیدگی پیدا کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔اس موقع پر ایران میں پاکستان کے سفیر مدثر ٹیپو نے کا کہنا تھا کہ پاکستان تہران کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے نئے باب کے آغاز کیلئے تیار ہے، پاکستان دشمنوں کو مشترکہ سرحد سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دے گا۔ دریں اثناء ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے سراوان میں پاکستانی شہریوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ افسوسناک واقعے کی متعلقہ حکام کی طرف سے تحقیقات جاری ہیں، ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اور متاثرین کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، دشمنوں کو ایران اور پاکستان برادرانہ تعلقات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یاد رہے اگلے روزکہ ایران میں پاک ایران سرحدی علاقے بمپشت سروان میں نامعلوم مسلح افراد نے 9 پاکستانی شہریوں کو قتل کردیا، نامعلوم مسلح افراد نے پاک ایران سرحد کے قریب فائرنگ کرکے 9 پاکستانیوں کو قتل اور تین کو زخمی کیا تھا، تمام پاکستانیوں کو بلوچستان کے شمالی علاقوں سے ملحقہ سرحد پار سروان میں قتل کیا گیا۔ہماری رائے میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا بیان موجودہ حالات کے تناظر اور دو برادر اسلامی ہمسایہ ملکوں پاکستان اورایران کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے والے دشمن عناصر کے لئے ایک واضع پیغام ہے کہ دونوں برادر ملکوں کے درمیان تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے جو اس طرح کی دہشت گردی کی وارداتوں سے متاثر نہیں ہونگے۔ بلاشبہ ایرانی حکومت کی طرف سے دہشت گردی کی اس بیمانہ قتل واردات کی مذمت اور تحقیقات کا آغاز ایک اچھی اور مثبت پیشرفت ہے۔ ہماری رائے میں دہشت گردی کی اس کاروائی میں پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب کر نے والے ملک بھارت کی خفیہ ایجنسی را ملوث ہے۔ بلاشبہ بھارت ایک طویل پالیسی کے تحت افغانستان اور ایران میں بڑئے پیمانے پر سرمایا کاری کرتے آیا ہے اور ان دونوں ملکوں میں بھارت ایک خاص لابی اور پاکستان دشمن عناصر کو فنڈنگ کررہا ہے بھارت نے ان ملکوں میں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں اور وہ ان عناصر کو مختلف وقتوں میں ضرورت پڑھنے پر استعمال کرتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ بھی افغانستان میں موجود بھارتی لابی اور را کی مشترکہ کاروائیوں کا نتیجہ ہے۔ اب بھارت نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرتے ہوتے ہوئے افغانستان کے بعد ایران کی طرف سے بھی پاکستان کے لئے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ پاکستان کو باور کرایا جاسکے کہ نا صرف بھارت بلکہ افغانستان اور ایران کی سرحدیں بھی پاکستان کے لئے محفوظ نہیں۔ ہماری رائے میں بھارت کی سازشیں اور پاکستان کے خلاف اس طرح کی کاروائیاں کوئی نئی بات نہیں۔ اس وقت بھارت عالمی سطح پرسکہ بند دہشت گرد ملک ثابت ہوچکا ہے اور اس حوالے سے واضح رہے کہ اگلے روز دفتر خارجہ میں بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری خارجہ سائرس قاضی نے بتایا تھا کہ ہمارے پاس دو پاکستانی شہریوں کو انڈیا کی جانب سے قتل کیے جانے کے مصدقہ ثبوت موجود ہیں۔ یاد رہے کہ حکومت پاکستان کا حالیہ دہشت گردی و ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھارتی دہشت گردی کے شواہد ملنے پر اس معاملے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیاہے۔ دریں اثنا گلوبل ٹائمز نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لیے بھارت بلوچستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو مالی مدد اور اسلحہ فراہم کررہا ہے۔اسی حوالے سے گزشتہ روز پاکستان کے ایک سابق سیکریٹری خارجہ کا بھی کہنا تھا کہ امریکا اور کینیڈا نے بھی حال ہی میں بھارت کیخلاف چارج شیٹ دی ہے، ان کہا کہنا تھا کہ یہ دونوں ممالک بھی وہی بات کر رہے ہیں جو پاکستان کا بھارت کی دہشت گردی کے حوالے سے موقف ہے۔اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ گزشہ ایک سال سے پاکستان میں جو ٹارگٹ کلنگ ہو رہی تھیں اور ایک ہی طریقے سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر شک ہو رہا تھا کہ ان کاروائیوں میں بھارت ہی ملوث ہے اور یہ بھی اہمیت کی حامل ہے کہ بھارتی میڈیا میں پاکستان میں ان ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔بلاشبہ ایران میں دہشت گردی کی کاروائی میں 9 پاکستانی محنت کشوں کا بیمانہ قتل انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہی نہیں ناقابل برداشت واقع ہے۔ اس حوالے سے جیسا کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے تہران میں پاکستان کے سفیر مدثر ٹیپو سے ملاقات میں پاکستان سے یکجہتی اور جن جذبات کا اظہار کیا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ ایرانی حکومت اس معاملے کو سنجیدیگی سے لیتے ہوئے ملوث افراد کو نا صرف نشان عبرت بنائے بلکہ ملوث ملک کے خلاف بھی کاروائی یقینی بنائے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس بیمانہ قتل اور دہشت گردی کی کاروائی میں بھارت ہی ملوث ہے کیونکہ بھارت شیطانی چالوں کے ذریعے پاکستان کے گردگہرا تنگ کرکے اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے پاکستان حکومت کی طرف سے مطالبہ ہونا چایئے کہ افغانستان اور ایران کی حکومتیں بھارت کا ہنی مون پیریڈ اپنے ملکوں سے ختم کریں کیونکہ ان دونوں ملکوں کے مفادات جس طرح پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں وہ بھارت کے ساتھ نہیں اور نہ ہی دونوں ملکوں کا براہ راست بھارت سے کوئی سرحدی تعلق اور رابطہ ہے۔ یہی بات قابل غور ہے کہ بھارت ایک طویل پالیسی اور حکمت عملی کے تحت روز اول سے ہی افغانستان اور ایران میں سرمایا کاری کرتے چلا آیا ہے اور اسی مقصد کے تحت بھارت نے ان دونوں ملکوں میں اپنی خفیہ ایجنسی را کا جال بچھایااور اب بھارت اپنے قائم اڈوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف کاروائیاں کر رہا ہے۔ ہماری رائے میں پاکستانی حکومت کو دونوں برادر ہمسایہ ملکوں پر زور دینا ہوگا کہ وہ اپنے ملکوں سے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کا نیٹ ورک اور اڈوں کا خاتمہ یقینی بنائیں۔یہ بھی وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان، افغانستان اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لیتے ہوئے ان تعلقات میں مزید مضبوطی یقینی بنائے بلاشبہ دونوں ملک پاکستان کے برادر اسلامی ہمسایہ ملک ہیں اور تینوں ملک مستقبل میں تعاون اوردوستی کے نئے رشتوں کا آغاز کریں تو یہ نا صرف بھارت کی سازشوں کا مثبت جواب بلکہ اس خطے کے امن، سلامتی اور ترقی کے نئے دور کے آغاز اور بھارت کی ناکامی کا موجب ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں