وطن عزیز 0

معاشی استحکام سے ہی وطن عزیز کو عالمی مالیاتی ادارے کے قرضوں کی دلدل سے نجات دلائی جاسکتی ہے

معاشی استحکام سے ہی وطن عزیز کو عالمی مالیاتی ادارے کے قرضوں کی دلدل سے نجات دلائی جاسکتی ہے

ایک خبر کے مطابق آئی ایم ایف کا مذاکراتی وفد منتخب حکومت بننے کے بعد فروری کے آخری ہفتے یا مارچ کے اوائل میں پاکستان آئے گا۔ذرائع نے بتایاکہ موجودہ قرض پروگرام کی آخری قسط کیلئے صرف نئی منتخب حکومت سے ہی بات چیت ہوگی، آئی ایم ایف کا وفد نگراں حکومت سے آخری قسط کیلئے مذاکرات کرنے میں سنجیدہ نہیں۔موجودہ قرض پروگرام کے تحت آخری قسط میں ایک ارب دس کروڑ ڈالر موصول ہونا ہیں،نگران حکومت نے آئی ایم ایف کے تمام اہداف حاصل کر لئے ہیں، نگران حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے منتخب حکومت کو بات چیت میں آسانی ہوگی۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف اورنئی منتخب حکومت میں بات چیت فروری کے آخری ہفتے یا مارچ کے پہلے ہفتے میں ہو سکتی ہے۔یاد رہے کہ آئی ایم ایف 3ارب ڈالر پروگرام میں پاکستان کو 1.9ارب ڈالر قرض دے چکا ہے، جولائی میں آئی ایم ایف نے کہا تھا آخری جائزہ رپورٹ نئی حکومت کیساتھ ہو گی۔موجودہ آئی ایم ایف اسٹینڈ بائی پروگرام 12اپریل کو ختم ہو رہا ہے، مارچ تک دوسرا جائزہ مکمل ہو جاتا ہے تو1.1ارب ڈالر اپریل تک ملنے کی امید ہے۔ہماری رائے میں آئی ایم ایف سے قرض اس وقت معاشی حالات کی کمزوری اور بحران کے باعث ایک مجبوری ہے وگرنہ یہ قرض ایک دلدل ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک جس کا انحصار بیرونی قرضوں اور امداد پر ہو کسی صورت ترقی نہیں کرسکتا۔ بلاشبہ یہ بیرونی قرضوں کا ہی شاخسانہ ہے کہ ملک کی عوام بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی کے عفریت سے نبرد آزما ہیں۔ ہماری رائے میں آئی ایم ایف سمیت تمام بیرونی سودی قرض ایک لعنت کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں تک آئی ایم ایف سے آخری قسط کا تعلق ہے بلاشبہ ہماری معیشت کو سہارا دینے کے لئے اس قسط کی ہماری معیشت کے لئے اہمیت کی حامل اور اشد ضروری ہے اور اب جبکہ وطن عزیز میں انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے لیکن حکومت سازی کا عمل مکمل ہونا ابھی باقی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے نظام میں نگران حکومت کی نسبت ایک منتخب حکومت کی اہمیت اور افادیت زیادہ ہے، اس حقیقت کے باوجود نگران حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر عمل درآمد یقینی بنایا اور ان شرائط کی تکمیل میں بھلے عوام پر مہنگائی کا بے قابو جن نازل کیا گیا کیونکہ آئی ایم ایف کی خواہش اور شرائط کی وجہ سے ہی بجلی،گیس، پانی، پی ٹی سی ایل اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا ء اضافہ سے عوام پر بے پناہ بوجھ ڈالا گیا۔ بلاشبہ حکومت کی طرف سے یوٹیلیٹی بلوں اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ کا ہی شاخسانہ ہے کہ اشیاء خورودنوش اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کئی گناہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور اس مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دیں۔ بلاشبہ مہنگائی اسی صورت میں عوام کے لئے مشکلات پیدا نہیں کرتی جب لوگوں کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہو اور قوت خرید آمدنی میں اضافے کی صورت میں ہی بڑھ سکتی ہے۔یہ ہماری قومی بد قسمتی ہے کہ وطن عزیز کئی دہائیوں سے آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنس چکا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان قرضوں اور پیرونی امداد سے ہمارا ملک ترقی نہ کرسکا اور سود کی لعنت اور عدم ادائیگیوں اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے باعث قوم کو ہی ان قرضوں میں کئی گناہ اضافہ کا بوجھ اٹھانا پڑا۔
یہ ان بیرونی قرضوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج آئی ایم ایف اپنی شرائط پر عمل درآمد کرانے کے لئے ہماری حکومتوں کو ہدایات جاری کرتا ہے او ر اگر یہ کہا جائے کہ یہ عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے ہمارے اندرونی معاشی معاملات میں مداخلت ہے تو غلط نہ ہوگا۔ لہذا ضروری ہوگا کہ جس قدر جلد ممکن ہو وطن عزیز پاکستان کو بیرونی قرضوں اور امداد کے چکر سے نجات دلائی جائے اور یہ اہداف اسی صورت حاصل ہوسکتے ہیں جب ملک کی معیشت مستحکم ہوگی اور ملک میں معاشی سرگرمیاں مثبت انداز میں متحرک ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ قدرتی وسائل سے نواز رکھا ہے اور معیشت کو درست سمت لانے کے لئے معاشی اصلاحات انتہائی ضروری ہیں۔ ادائیگیوں میں توازن، ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ٹیکس وصولی کا موثر اور بہتر نظام، سیاحت کی ترقی اور سب سے بڑھ کر زراعت اور صنعت کی ترقی پر فوکس کیا جائے تو اہداف حاصل کرنا مشکل نہیں۔ ان شعبوں کی ترقی سے جہاں وطن عزیز معاشی استحکام کی منزل حاصل کرپائے گا، وہاں فی کس آمدنی اور ذرایع روزگار میں اضافہ بھی ممکن ہوگا جو خوشحالی اور خود انحصاری کا حصول ممکن بنا سکتا ہے۔ یہ بھی ہماری قومی بد قسمتی رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اکثر انتخابات سے پہلے عوام کو جومنشور دیتی ہیں اور جو وعدے کئے جاتے ہیں ان پر عمل درآمد یقینی نہیں بنایا جاتا جس وجہ سے اکثر عوام جمہوری نظام سے بیزار نظر آتے ہیں۔ لیکن بحر صورت جمہوری نظام سے ہی عوام کی مشکلات کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے، اس کے لئے ضروری ہوگا کہ سیاست اور حکومت میں پر خلوص اور ایماندار قیادت ہی ملک کو مشکلات اور قرضوں کی دلدل سے نجات دلا سکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر کب تک پاکستانی قوم محرومیوں اور غربت کا رونا روتے رہیں گے۔امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ آنے والی منتخب حکومت معاشی حالات میں بہتری لائے گی اور عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے لئے مہنگائی میں کمی اور یوٹیلیٹی بلوں اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی یقینی بنائے گی۔ کیا اچھا ہوتا کہ آئی ایم ایف سے جاری حالیہ پروگرام آخری ثابت ہواور ملک عالمی مالیاتی ادارے کے چنگل سے باہر آجائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں