حافظ نعیم الرحمن 0

جماعت اسلامی کا دھاندلی ، جعلی نتائج و مینڈیٹ پر قبضے کے خلاف کراچی میں جمعہ کو یوم سیاہ کا اعلان

جماعت اسلامی کا دھاندلی ، جعلی نتائج و مینڈیٹ پر قبضے کے خلاف کراچی میں جمعہ کو یوم سیاہ کا اعلان

سینکڑوں مقامات پر مظاہرے کیے جائیں گے ، جی ڈی اے کے احتجاج میں شریک ہوں گے ،حافظ نعیم الرحمن کی پریس کانفرنس

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے نتائج کالعدم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ عام انتخابات میں بدترین دھاندلی ، جعلی نتائج ، مینڈیٹ پر قبضے ، الیکشن کمیشن کی نا اہلی اور شفاف و منصفانہ انتخابات میں ناکامی کے خلاف جماعت اسلامی کے تحت جمعہ 16فروری کو پورے شہر میں ”یوم سیاہ” منایا جائے گااور سینکڑوں مقامات پر مظاہرے کیے جائیں گے ، جماعت اسلامی دھاندلی کے خلاف حیدرآباد ٹول پلازہ پر جی ڈے اے کے احتجاج میں بھی شرکت کرے گی ۔

کراچی میں ایک ایسی پارٹی جس کا ٹریک ریکارڈ دہشت گردی ، بھتہ خوری اور نفرت و تقسیم کی سیاست ہے اسے دوبارہ مسلط کرنا نہ صرف کراچی ، بلکہ صوبے اور پورے ملک کے ساتھ دشمنی ، جمہوری رائے اور آئینی و قانون کی پامالی ہے ، عوام نے گھروں سے نکل کر جن لوگوں کو مسترد کر دیا ہے انہیں زبردستی مسلط کرنا کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا ۔

انٹر سال اوّل کے متنازعہ نتائج کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کی بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق بھی ثابت ہوا ہے کہ کراچی کے طلبہ و طالبات کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔ جس کی ذمہ داری کرپٹ و نا اہل افسران ، ان کو مسلط کرنے اور ان کی سرپرستی کرنے والی حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ ہم کراچی کے نوجوانوں کا مستقبل تباہ نہیں ہونے دیں گے ۔

گیس کی قیمتوں میں مزید 67فیصد اضافے کو مسترد کرتے ہیں یہ اضافہ اور پہلے کیے گئے 173اور 193فیصد اضافے کو بھی واپس لیا جائے ۔ نگراں حکومت کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس طرح کے فیصلے کرے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو ادارہ نور حق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹراسامہ رضی،جنرل سیکرٹری منعم ظفر ،نائب امیر راجہ عارف سلطان،سٹی کونسل کے رکن قاضی صدر الدین، ابن الحسن ہاشمی اورسیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری بھی موجود تھے ۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہمارا واضح اور دو ٹوک مطالبہ ہے کہ کراچی کے جعلی انتخابی نتائج کالعدم قرار دیئے جائیں ، ان کی فارنزک تحقیقات کی جائے اور سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق 22فروری تک فارم 45کے مطابق نتائج جاری کیے جائیں ۔ جماعت اسلامی اپنے عوامی مینڈیٹ سے کسی صورت دستبردار نہیں ہو گی اور آئینی و قانونی اور سیاسی و جمہوری جدو جہد جاری رکھے گی ۔ انہوں نے کہا کہ آر اوز کے جاری کردہ فارم 47اورپریذائیڈنگ افسران کے دیئے گئے فارم 45سے مختلف ہیں ان کو درست کیے بغیر نتائج جاری کرنا اور کئی نشستوں پر فارم 48بھی جاری نہ کرنا عدالتی حکم کی خلاف ورزی اور توہین عدالت ہے ،

حافظ نعم الرحمن نے کہا کہ کراچی میں جس طرح عوامی مینڈیٹ اور رائے عامہ کو کچلاگیا ہے اس پورے عمل نے الیکشن کو ایک تماشہ بنا دیا ہے ۔ عوام نے اپنی ووٹ کی طاقت سے جن لوگوں کو اُٹھا کر پھینک دیا ہے اور جو لوگ کراچی میں دہشت گردی ، بھتہ خوری ، بلدیہ فیکٹری جلانے کے ذمہ دار ہیں ان کو اہل کراچی پر مسلط کرنا بڑی زیادتی ہوگی ۔

فارم 45کے مطابق جماعت اسلامی نے کراچی میں 8لاکھ ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ ایم کیو ایم پولنگ اسٹیشنوں پر قبضوں ، جعلی ٹھپوں پہلے سے دیئے گئے بیلٹ پیپرز ڈالنے کے باوجودلاکھ ڈیڑھ لاکھ ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکی کوئی ایک سیٹ تو کیا کسی پولنگ اسٹیشن پر بھی ایم کیو ایم کا امیدوار کامیاب نہیں ہوا ہے ۔ ان حقائق کے بعد مقتدر حلقوں کو بھی سوچنا چاہیئے کہ کراچی میں عوامی مینڈیٹ کے برخلاف عمل کے کیا نتائج نکلیں گے ؟ جماعت اسلامی شہر کو یرغمال بنانے اور دہشت گردوں کی سرپرستی ہر گز قبول نہیں کرے گی ۔

عوام کے اندر شعور بیدار ہوا ہے ، عوام نے گھروں سے نکل کر اپنی رائے کا اظہار کیاہے ، عوام بھی اس جعل سازی کو قبول نہیں کریں گے ۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہم نے انتخابی مہم کی تمام تر مصروفیات کے باوجود انٹر سال اوّل کے متنازع نتائج کے حوالے سے کراچی کے ہزاروں طلبہ و طالبات کے مسئلے کو اُٹھایا اور آج بھی ہم متاثرہ بچوں کے ساتھ ہیں ، نگراں وزیر اعلیٰ کی کمیٹی کی رپورٹ میں بھی ہے کہ ان بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔چند گریس مارکس دینے سے اس کا ازالہ نہیں ہو گا ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان نتائج کو منسوخ کیا جائے اور بارہویں جماعت کے امتحانات اور نتائج مکمل شفاف بنائیں جائیں او ر اس ہی کی بنیاد پر گیارہویں جماعت کے نتائج کا فیصلہ کیا جائے ۔

پورے سندھ میں بارہویں جماعت کا پیپر ایک ہی ہونا چاہیئے اور اس ہی بنیاد پر میڈیکل و انجینئرنگ کے داخلے دیئے جائیں ۔ کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کراچی کے امتحانی پرچے کراچی کے علاوہ دیگر بورڈز کے پرچوں سے نہ صرف مختلف بلکہ مشکل بھی ہوتے ہیں ۔ جب سندھ ٹیکسٹ بک بورڈکا نصاب ایک ہی ہے تو پرچہ اور امتحانات الگ الگ کیوں ہوتے ہیں ۔ اس فرق کو ختم کیا جانا بھی ضروری ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق امتحانی کاپیوں کی جانچ کا عمل غیر شفاف تھا ، بیشتر عملہ غیر تربیت یافتہ اور اسٹینڈرڈ آپریٹنگ سسٹم سے ناواقف تھا، امتحانات کے پیٹرن کی تبدیلی ، اس تبدیلی کے ممکنہ نتائج سے عدم آگاہی اور کسی گائیڈ لائین کی غیر موجودگی کے باعث ایگزامنر نے من مانے نمبرز دیئے ، بیشتر کاپیاں گھر پر چیک کی گئیں ،

نتائج کو خراب کرنے میں سندھ حکومت ، وزیر تعلیم اور بورڈ کے نا اہلی و کرپٹ افسران شامل ہیں ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس عمل میں ملوث تمام نا اہلی و کرپٹ افسران کو برطرف کیا جائے اور ان پر مقدمات قائم کیے جائیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں