پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس 0

پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ کے باعث مہنگائی کا جن مزید بے قابو ہوگیا، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں

پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ کے باعث مہنگائی کا جن مزید بے قابو ہوگیا، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں

بجلی،گیس اور پیٹرولیم صارفین کے لئے یہ خبر بلاشبہ تشویش کا باعث ہے کہ نگران حکومت نے اپنے آخری ایام میں عوام پر بجلی،گیس اور پیٹرولیم بم گرا دیئے ہیں۔ گزشتہ روز نگران حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا اور وزارت خزانہ نے قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ پیٹرول کی قیمت میں 2 روپے 73 پیسے فی لیٹر جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 8 روپے 37 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ پیٹرول کی نئی قیمت 275 روپے 62 پیسے فی لیٹر جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت میں 287 روپے 33 پیسے فی لیٹر مقرر ہوگئی۔دریں اثناء وطن عزیز میں میں الیکشن ہوتے ہی نگران وفاقی حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی گئی۔ملک میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ اس وقت سامنے آیا ہے جب صارفین بجلی کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ملک میں مہنگائی کی شرح 28 فیصد سے زائد کی بلند شرح پر موجود ہے۔تاہم حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو اور صنعتی صارفین پر اضافی بوجھ پڑا ہے۔وفاقی کابینہ کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافہ یکم فروری 2024 سے موثر ہو گا یعنی فروری کے مہینے میں گیس استعمال کرنے پر صارفین کو مارچ کے مہینے میں بلوں کی ادائیگی کرنی پڑے گی۔حکومتی فیصلے سے صنعتی صارفین بھی متاثر ہوں گے تاہم اس کے ساتھ گھریلو صارفین کو بھی گیس کے استعمال پر زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی۔گھریلو صارفین کی کیٹگری میں پروٹیکیڈ اور نان پروٹیکیڈ صارفین دونوں کے لیے گیس کی قیمت بڑھا دی گئی ہے۔گیس کی سلیبز میں 0.25 ہیکٹرومیٹر سے 0.90 ہیکٹرو میٹر تک ماہانہ گیس استعمال کرنے والے صارفین پروٹیکیڈ کیٹگری میں شامل ہیں اور اس سے زیادہ گیس استعمال کرنے والے نان پروٹیکیڈ صارفین میں شمار ہوتے ہیں۔ان دونوں کیٹیگریوں کے لیے گیس کی قیمت میں پانچ سے 67 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ قبل ازیں نگران حکومت نے نومبر 2023 میں بھی گیس کی قیمت میں اضافہ کیا تھا جو حالیہ اضافے سے بھی زیادہ تھا۔ن صارفین کے بلوں میں فکسڈ چارجز دس روپے تھے وہ چار سو روپے ماہانہ تک کر دیے گئے تھے۔ نومبر میں مختلف کیٹگریوں میں ماہانہ فکسڈ چاجز کو چار سو روپے سے ایک ہزار اور دو ہزار روپے تک کر دیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ گذشتہ سال نومبر کے مہینے میں پروٹیکیڈ صارفین یعنی کم گیس استعمال کرنے والے صارفین جو کم آمدن والے افراد ہوتے ہیں، ان کے گیس کے نرخوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔تاہم اب نگران حکومت کے حالیہ اقدام میں ان صارفین کے لیے بھی گیس کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے دسمبر کے آخری ایام میں نیپرا نے بجلی کی قیمت میں 4 روپے 56 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا تھا۔ نیپرا نے سی پی پی اے کی درخواست پر سماعت کی تھی۔ سی پی پی اے نے بجلی کے فی یونٹ کی قیمت میں 5 روپے 62 پیسے اضافے کی درخواست کی تھی۔ضافے سے بجلی صارفین پر 39 ارب 80 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ بجلی صارفین کو فروری کے بلوں میں اضافی ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔ہماری رائے میں پاکستانی عوام پر نگران حکومت نے پے در پے بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ کرکے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ بلاشبہ ان سہولتوں کی قیمتوں میں اضافہ جہاں فوری طور پر صارفین پر اثر انداز ہوتا ہے جس سے ان کے مالی مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہونا ایک لازمی امر ہے۔ لیکن یہ معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں رہتا بلکہ ان سہولتوں کی قیمتوں میں اضا فہ جب صنعتی یونٹس اور کمرشل اداروں پر پڑتا ہے تو لامحالہ اشیاء کی قیمتوں کو بھی پر لگ جاتے ہیں۔ نگران حکومت کی طرف سے بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلل اضافہ نے مہنگائی کے جن کو مزید بے قابو کردیا ہے۔ نگران حکومت صرف بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات تک محدود نہیں رہی بلکہ پانی اور ٹیلی کیمونکیشن،پی ٹی سی ایل اور انٹرنیٹ کی قیمتوں میں بھی ہوشرباء اضافہ دیکھنے میں آیا جس سے عوام کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔ ہمارے ہاں دنیا کے دیگر ملکوں کی نسبت الٹی گنگا بہتی ہے دنیا میں ٹیلی کیمونکیشن اور انٹر نیٹ کی قیمتوں میں کمی کا رحجان پایا جاتا ہے، جبکہ اس کے برعکس ہمارے ہاں عوام پر مہنگائی کے بوجھ میں اضافے کی غرض سے دیگر سہولتوں کو بھی مشکل بنایا جارہا ہے کیونکہ کوئی پوچھنے ولا نہیں۔ بلاشبہ یہ معاملات صرف ان سہولتوں میں قیمتوں میں اضافہ سے ہی متعلق نہیں بلکہ حقیقت میں ملک کے صنعتی اور کمرشل ادارے غرض کہ تمام کاروبار ان سہولتوں سے منسلک ہیں جس کے باعث اشیاء خوردونوش سے لیکر عام استعمال کی ہر چیز مہنگی اور عام صارفین کی دسترس سے باہر ہوجاتی ہے۔ ہماری دانست میں ایسا لگتا ہے کہ نگران حکمران عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے نجات دلانے کی بجائے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے اور عالمی مالیاتی ادارئے کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے آئے تھے اور اب جاتے جاتے نگرانوں نے عوام کے لئے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ نگران حکومت نے عوام کی قوت خرید میں اضافہ کرنے کی غرض سے ایسے کوئی اقدامات بھی نہیں اٹھائے جس سے عوام کی فی کس آمدنی میں کوئی اضافہ ہوتا اور وہ مہنگائی کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہوتے لیکن ایسا کچھ نہ کیا گیا۔ اب جبکہ وطن عزیز میں انتخابات کا عمل تقریبا مکمل ہوچکا ہے اور سیاسی جماعتوں میں حکومت سازی کے لئے جوڑ ٹور عروج پر ہے۔ اس سے قطع نظر کہ کون سی جماعت یا اتحاد حکومت تشکیل دیتا ہے ضروری ہوگا کہ ملک کے وسیع تر مفاد اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے جس قدر جلد ممکن ہو حکومت سازی کا عمل مکمل کیا جائے تاکہ نئی آنے والی سیاسی جمہوری منتخب حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لئے مثبت اقدامات یقینی بنائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں