او آئی سی 0

اہل قیادت کے فقدان، اتحاد ویکجہتی کی کمی کے باعث عالم اسلام کا او آئی سی جیسا مضبوط فورم کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ مسائل کے حل میں ناکام رہا

اہل قیادت کے فقدان، اتحاد ویکجہتی کی کمی کے باعث عالم اسلام کا او آئی سی جیسا مضبوط فورم کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ مسائل کے حل میں ناکام رہا

اگلے روز ایرانی وزیرخارجہ حسین امیرعبداللہیان نے سیکریٹری جنرل او آئی سی کو فون کیا اور کہا کہ رفح میں اسرائیل کے زمینی آپریشن سے 10 لاکھ فلسطینی متاثر ہوں گے، لہذامسلم ممالک اسرائیل کو جارحیت سے روکنے کے اقدامات کریں۔ دریں اثناء عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی طیاروں کی جانب سے نصیرات پر بمباری کی گئی ہے، جس میں 11 فلسطینی شہید ہوگئے جن میں 6 بچے بھی شامل ہیں بلاشبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم ستم میں اضافہ ہو رہا ہے اور غزہ میں گزشتہ روز بھی مزید 110 فلسطینی شہید کر دیے گئے۔ الناصر ہسپتال میں آکسیجن کی سپلائی کی بندش سے پانچ مریض بھی جاں بحق ہوئے۔غزہ میں صہیونی فوج کی طرف سے خوراک کی سپلائی پربندش کی وجہ سے خوراک کا بحران اور آٹے کی شدید قلعت پیداہوگئی ہے،ادھر عالمی ادارہ صحت نے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں مریضوں کی مشکلات کے پیش نظر جنگ بندی کی جائے۔ہماری رائے میں ایران کی طرف سے او آئی سی کا اجلاس طلب کرنا ایک اچھی اور مثبت کوشش ہوسکتی ہے لیکن جو وطیرہ اسلامی ملکوں نے فلسطین سے متعلق اپنایا ہوا ہے وہ نہ صرف قابل افسوس بلکہ قابل مزمت بھی ہے۔ جہاں تک او آئی سی کی اہمیت اور افادیت کا تعلق ہے وہ ان ملکوں کی منافقانہ پالیسی کے باعث اپنا وقار اور اہمیت کھو چکی ہے۔ کیونکہ عالم کفر اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ اسلامی ممالک تقسیم اور نفاق کا شکار ہیں لہذا اسرائیل ہو یا انڈیا، یا کوئی اور طاغونی قوت ہوانہیں اسلامی ملکوں کا کوئی خوف اور ڈر نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب ممالک اپنے مفادات کی خاطر تقسیم اور انتشار کا شکار ہیں اور ان سے ان قوتوں کو کوئی خطرا نہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس نام نہاد اسلامی امت کا ضمیر اس قدر مردہ ہوچکا ہے کہ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔جس امت کو ہادی برحق رحمت للعالمینﷺ نے جسد واحد اورایک لڑی قرار دیا ہوا ہے جس سے ان کی ہیبت، اہمیت اور قدر ومنزلت میں اضافہ یقینی ہوتا اور یہ اسلامی ملک اتحاد اور یکجہتی اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے باعث عروج پر ہوتے،لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تعلیمات سے انحراف کے باعث پوری امت مسلمہ خاص طور پر بے پناہ قدرتی وسائل والے ملک اغیار کے رحم و کرم پر اورمشکل حالات سے دوچار ہی نہیں پستی اور گراوٹ کا شکار بھی ہیں۔رسول برحق ﷺ نے عالم کفر کو ملت واحدجبکہ امت مسلمہ کو جسد واحد قرار دیا تھا۔یہ انتہائی افسوناک صورتحال ہے کہ کفر اور الحادی قوتوں نے اپنے اتحاد سے خود کو تو ملت واحد ثابت کر دیا، لیکن اس کے برعکس عالم اسلام مفادات اور لالچ میں تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اللہ رب العزت نے اسلامی ملکوں کو بے پناہ مالی اور قدرتی وسائل سے نوازا ہوا ہے لیکن دنیاوی جاہ جلال اور مفاداتی سیاست نے ان ملکوں کی قیادت کی آنکھوں پر لالچ اور حرص کی پٹی باندھ دی ہے اور وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ امریکہ، برطانیہ اور صہیونی اسرائیل ان کے دوست اور خیر خواہ ہیں تو یہ ان کی خام خیالی اور غلط فہمی ہے۔ اسلامی ملکوں کی قیادت کی غفلت کا ہی شاخسانہ ہے کہ او آئی سی جو 57 ملکوں کا ایک مضبوط فورم تھا ایک مردہ گھوڑا بن چکا ہے۔ بلاشبہ اسلامی ملکوں کا یہ فورم اسلامی ملکوں کی قیادت کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کے فقدان اورتقسیم در تقسیم کی پالیسی اور مفاداتی سیاست کے باعث اپنی اہمیت اور افادیت کھو چکا ہے۔ بلاشبہ اسلامی ملکوں کی قیادت او آئی سی کے فورم پر ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے میں روز اول سے ہی
ناکام نظر آئی جس سے یہ مضبوط پلیٹ فارم عضو معطل ہو کر رہ گیا۔ہماری رائے میں یہ صورتحال عالم اسلام کے لئے انتہائی شرم کا باعث ہونی چایئے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت اپنے عروج پر ہے اور درندہ صفت ظالم صہیونی فوج کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔عالمی ادارہ اقوام متحدہ، عالمی قوتوں اور حتی کہ اسلامی ملکوں کی قیادت کا ضمیر لگتا ہے سو گیا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ جو اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کے پیدا کندہ، تخلیق کاراور گارڈ فادر ہیں دونوں ملک اپنے مفادات کے لے لئے اسرائیل کی مکمل پشت پنائی کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے رفع میں فلسطینیوں کو علاقہ خالی کرنے کی ڈیڈ لائن دینا اور ڈید لائن ختم ہونے سے پہلے ہی حملوں کا سلسلہ انتہائی افسوسناک صورتحال کا پیش خیمہ ہے اور ایسا لگتا ہے ڈید لائن ختم ہونے کے بعد صہیونی فورسز ایک نئی تبائی اور بربادی شروع کر دیں گی جس سے بڑی تعداد میں مزید بے گناہ اور نہتے فلسطینی شہری شہید ہونگے۔بلاشبہ اسلامی ملکوں کی قیادت کی طرف سے بیان بازی زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں اور اگریہ کہا جائے کہ یہ ایک مجرمانہ غفلت ہے تو غلط نہ ہوگا۔ عالم اسلام کی خاموشی اور سرد مہری کے باعث صہیونی اسرائیل کا حوصلہ بڑھ رہا ہے اوراسے مزید آشیرباد مل رہی ہے کہ فلسطینیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہماری رائے میں اسلامی امت خاص طور پر مضبوط اسلامی ملکوں کو اب اپنی روش تبدیل کر کے ایک موثر اور مضبوط موقف اپنانا ہوگا کیونکہ اس میں نا صرف فلسطینیوں کی بقاء ہے بلکہ خود اسلامی ملکوں کی بقاء اور سالمیت کا راز ہے اگر آج اسرائیل کا ہاتھ نہ روکا گیا تو صہیونی اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کا راستہ آسان ہوجائے گا۔ اسرائیل کی نگاہ کہاں تک ہے اس کا ادارک اسلامی ملکوں کو کرنا ہوگا اور جو ملک اسرائیل سے دوستی قائم کرکے خود کو محفوظ جانتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ بلاشبہ ایران کی طرف سے جو اجلاس طلب کیا گیاہے یہ ایک اچھا موقع ہے اور اس اجلاس میں او آئی سی کو سخت اور مضبوط موقف اپنانا ہوگا اسی میں امت کی عزت، بقاء اور سالمیت کا راز پنہا ہے۔ہماری دانست میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ممالک ہوش کے ناخن لیتے ہوئے او آئی سی کے فورم سے مضبوط اور طاقتور آواز بلند کریں اور اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں اور اقوام عالم پر اپنے تعلقات کی بنیاد پر زور دیں کہ وہ اسرائیل پرجنگ بندی اور اس مسئلے کے پر امن حل کے لئے دباؤ ڈالیں،اس حوالے سے چین اور روس کے ساتھ مل کر موثر حکمت عملی سے مثبت نتائج کا حصول ممکن ہے۔ ہماری رائے میں عالم اسلام اپنی اہمیت اور افادیت کا ادارک نہیں رکھتا کیونکہ قدرت نے جن وسائل سے عالم اسلام کو نواز رکھا ہے وہ معمولی نہیں لیکن اہل قیادت کے فقدان اور اتحاد کی کمی کے باعث یہ فورم وہ مقام حاصل نہ کرسکاجس کا یہ اہل تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں