متحدہ عرب امارات - کھجور 0

ستمبر2024میں وطن عزیز میں کھجور کی پہلی بین الاقوامی نمائش کا انعقاد ایک مثبت پیشرف ہے، بلاشبہ کھجور اور زیتوں کی پیداوار میں اضافہ سے پاکستان بے پناہ زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے

ستمبر2024میں وطن عزیز میں کھجور کی پہلی بین الاقوامی نمائش کا انعقاد ایک مثبت پیشرف ہے، بلاشبہ کھجور اور زیتوں کی پیداوار میں اضافہ سے پاکستان بے پناہ زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے

یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان میں کھجور کی پہلی بین الاقوامی نمائش ستمبر 2024 میں ہوگی، اس حوالے سے وفاقی کابینہ نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کی منظوری بھی دے دی ہے۔ اس نمائش کا مقصد پاکستان میں کھجور کی پیداوار کا فروغ ہے۔زرعی مفاہمتی یادداشت کے تحت پاکستان میں پہلا انٹرنیشنل ڈیٹ پام فیسٹیول منعقد کیا جائے گا۔ہماری رائے میں کھجور کی پیداوار اور اس کے فروغ کے لئے وفاقی حکومت کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ مفاہمتی یاداشت پر دستخط بلاشبہ ایک اچھی، مثبت اور قابل ستائش پیش رفت ہے۔ کھجور ایک بہترین پھل ہے اور عرب ملکوں میں اس کی پیداوار بہت زیادہ ہے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی پیداوار سے سعودی عرب اور دیگر عرب ملک بے پناہ زرمبادلہ کماتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں سندھ، بلوچستان کے علاوہ ساوتھ پنجاب کے علاقوں میں کھجور کی پیداوار پائی جاتی ہے۔ البتہ بلوچستان اپنی شاندار کھجوروں کے باغات کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ جہاں اللہ رب العزت نے بلوچستان کو بہت سے دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے وہاں پاکستان کی کھجور کی مجموعی پیدار میں بڑا حصہ بلوچستان کا ہے،پنجگور اور تربت سالانہ پاکستان کی کھجور کا 53 فیصد پیدا کر رہے ہیں۔ یہ بات بلا شبہ ہمارے لئے حوصلے اور خوشی کا باعث ہے کہ ماہرین زراعت کے مطابق جدید پیداواری ٹیکنالوجی سے استعفادہ کرکے پاکستان کھجور کی پیداوار میں دنیا میں پانچویں نمبر پر آگیا ہے۔ اس وقت پاکستان تقریبا 10لاکھ ٹن کھجور ہر سال پیدا کرکے بھاری زرمبادلہ کما رہا ہے۔ ماہرین کی رائے میں اگر پاکستان کے کھجور پیداواری علاقوں میں کھجوروں کوخشک کرنے کے لئے سولر ڈرائر نصف کئے جائیں توکھجور کی پیداوار میں اضافہ اور مزید بہتری لائی جاسکتی ہے۔یاد رہے کہ 2022میں متحدہ عرب امارات پاکستان ازسٹنس پروگرام یو اے ای- پی اے پی کے تحت پنجگور بلوچستان میں کھجوروں کی پروسیسنگ فیکٹری نے تجارتی پیمانے پرپیداوار شروع کردی تھی،یہ فیکٹری ابوظہبی فنڈ برائے ترقی اے ڈی ایف ڈی کی جانب سے فراہم کردہ فنڈ سے پنجگور میں قائم کی گئی تھی۔ خیال رہے کہ پاکستان 2022 میں کھجوروں کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک تھا لیکن اللہ کے کرم سے اب پاکستان کاکھجور کی پیداوار میں چھٹا نمبر ہے۔ پنجگورمیں یہ منصوبہ 5ہزار 710 مربع میٹر کے رقبے پر تعمیر کیا گیا ہے، جس میں بین الاقوامی معیارات کے مطابق کھجوروں کی پروسیسنگ، پیکجنگ اور ذخیرہ کرنے کی سہولت میسر ہے۔ اس کی 15پروڈکشن لائنوں کی پیداواری صلاحیت 4ٹن فی گھنٹہ، یا 32ہزارٹن یومیہ سے زیادہ ہے۔ بلاشبہ متحدہ امارات، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے اشتراک اور تعاون سے پاکستان اعلیٰ معیار کی کھجور کی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ کرکے بے پناہ زرمبادلہ کماسکتا ہے۔ بلاشبہ کھجور زمین پر اگنے والا ایک ایسا پودا ہے جو بنی نوع انسان کے لئے اللہ تعالی کے بے شمار تحفوں میں سے ایک بہترین تحفہ ہے۔کھجور انتہائی لذیذ اور غذائیت سے بھر پور پھل ہے۔کھجور کے درخت کی عمر دیگر پھلدار پودوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ بلاشبہ وطن عزیز پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، لیکن شومئی قسمت ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اپنی خوراک کی ضروریات کو بھی پورا نہیں کر پارہے اور اکثر ایسی زرعی اجناس جو پہلے پاکستان میں نہ صرف وافر مقدار میں پیدا ہوتی تھیں بلکہ یہ اجناس دوسرے ملکوں کو برآمد کی جاتی تھیں، لیکن زراعت کی طرف عدم توجہی کے باعث آج صورتحال یکسر بدل گئی ہے۔ کھجور کی طرح زیتوں بھی اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام اور نعمت ہے۔ زیتوں کی پیداوار اور اس کے تیل سے دنیا کے اکثر ملک بے پناہ زرمبادلہ کماتے ہیں۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے کجھور اور زیتون کی پیداوار اور اس کے فروغ کے لئے کوشش کریں تو پاکستان صرف ان دو پھلوں کی برآمدات سے بے پناہ زرمبادلہ کما کر اپنے معاشی حالات میں بہتری لاسکتا ہے۔ ہماری رائے میں حکومت کھجور اور زیتون کی پیداوار، افزائش اور اعلیٰ درجے کی کھجوروں اور زیتون کی وسیع پیمانے پر برآمدات کو یقینی بنانے کے لئے موثر اقدامات اٹھائے تو بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے لیکن حکومتوں نے زراعت کی ترقی کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ زراعت کی ترقی کو صرف ایک نعرے تک محدودرکھا گیا اور عملی اقدامات کے فقدان کے باعث آج ہم اپنی زرعی ضروریات کے لئے پڑوسی یا دیگر ملکوں سے زرعی اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومتوں نے کاشتکار اور کسان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے عملی اقدامات نہ اٹھائے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ اہم شعبہ زوال پزیر ہوابلکہ زررعی ترقیاتی بنک جو زراعت کی ترقی کے لئے قائم کیا گیا تھا کوبھی سیاست دانوں اور اعلیٰ طبقوں کے لئے قرض کازریعہ بنایا گیا اور اربو ں روپے کے قرض حاصل کرکے معاف کروائے گئے جس سے اس بنک کا دیوالیہ نکل گیا اور یہ بنک تبائی اور بربادی سے دوچار ہوا۔ جس بنک کا مقصد کسانوں اور کاشتکاروں کو قرض فراہم کرنا تھا وہ سیاسی قرضوں کے لئے استعمال ہوا۔بلاشبہ وطن عزیز پاکستان کی80فیصد آبادی کا تعلق زراعت سے ہے لیکن یہ اہم شعبہ غلط فیصلوں اور عملی اقدامات کے فقدان کے باعث انحطاط پزیر ہوا۔ اب بھی وقت ہے کہ آنے والی نئی جمہوری منتخب حکومت جہاں ملک کی ترقی کے لئے اقدامات کرئے گی وہاں زراعت کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دینے کے عملی اقدامات اٹھائے تو بہتری ہو سکتی ہے۔ کھجور اور زیتوں کی ترقی ان کی پیداوار میں اضافہ سے ملک کے لئے بے پناہ زرمبادلہ کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ہماری رائے میں اس حوالے سے نگران وفاقی حکومت کا متحدہ امارات کی حکومت کے ساتھ ستمبر2024 میں بین الاقوامی نمائش کے انعقاد کے لئے مفاہمتی یادداشت ایک مثبت پیشرفت ہے اور بلاشبہ اس نمائش سے پاکستان کی کھجور کو عالمی سطح پر فروغ دینے، متعارف اورمقبول کرانے میں بھرپور مدد ملے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں