Pak-Iran 0

نگران وفاقی کابینہ کا پاک،ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کے پہلے مرحلے میں 80 کلومیٹر پائپ لائن بچھانے کی منظوری ایک مثبت پیشرفت، بلاشبہ پاکستان کو اپنے مفادات کو مقدم رکھ کر ہی فیصلہ سازی کرنا ہوگی۔

نگران وفاقی کابینہ کا پاک،ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کے پہلے مرحلے میں 80 کلومیٹر پائپ لائن بچھانے کی منظوری ایک مثبت پیشرفت، بلاشبہ پاکستان کو اپنے مفادات کو مقدم رکھ کر ہی فیصلہ سازی کرنا ہوگی۔

گزشتہ روز ذرائع کے مطابق پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور کابینہ کی توانائی کمیٹی نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے پہلے مرحلے میں 80 کلومیٹر پائپ لائن بچھانے کی منظوری دیدی ہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان اپنی سرزمین پر80 کلومیٹر کی پائپ لائن بچھائے گا، پائپ لائن ایرانی سرحد سے گوادر تک بچھائی جائے گی۔80 کلومیٹر پائپ لائن بچھانے کے لیے ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا اور اس پر 15کروڑ80 لاکھ ڈالر کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق منصوبے کے لئے فنڈز جی آئی ڈی سی سے فراہم کیے جائیں گے۔ذرائع کے مطابق پائپ لائن بچھانے سے ایران، فرنچ قانون کے تحت 18 ارب ڈالر جرمانے کا نوٹس واپس لے گا اور یوں پاکستان 18 ارب ڈالر جرمانے کی ادائیگی سے بچ جائے گا۔گیس پائپ منصوبے سے ایل این جی کے مقابلے میں ایران سے 750 ملین کیوبک فٹ گیس انتہائی سستی ملے گی اور پاکستان کو سالانہ 5 ارب ڈالر سے زائد بچت ہوگی۔نگران وفاقی وزیر توانائی محمد علی نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ ایرانی بارڈر سے گوادر تک پائپ لائن بچھانے کا فیصلہ پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے، ایران سے ملنے والی سستی گیس سے صنعتوں کو خطیر فائدہ ہوگا۔ذرائع کا مزید کہناتھا کہ پاکستان امریکا سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر پابندیوں سے استثنی بھی مانگے گا۔واضح رہے کہ ایران، ترکی، عراق اور آذربائیجان کے ساتھ گیس کی خرید و فروخت کر رہا ہے جس پر پابندیاں لاگو نہیں۔ہماری رائے میں نگران وفاقی کابینہ کی طرف سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے پہلے مرحلے میں 80 کلومیٹر پائپ لائن ایرانی سرحد سے گوادر تک بچھانے کی منظوری بلاشبہ ایک اہم اور تاریخی پیشرفت ہے، سب سے بڑھ کر ایران کی طرف سے فرنچ قانون کے تحت 18 ارب ڈالر جرمانے کا نوٹس واپس لینے کا عندیہ بھی ایک اہم اور قابل ستائش پیشرفت ہے۔بلاشبہ یہ گیس پائپ لائن منصوبہ جو امن منصوبہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ہماری رائے میں یہ پائپ لائن مکمل ہونے کے بعد پاکستان کے لئے ایران سے سستی گیس کا حصول ممکن ہوجائے گا۔یاد رہے پاکستان اور ایران کے درمیان یہ منصوبہ 2012میں طے پایا تھا اور یہ پائپ لائن 2014 میں مکمل کرنا تھی لیکن امریکہ کی طرف سے ایران پر پابندیوں اور پاکستان پر دباؤ کے باعث پاکستان اپنے حصے کا کام مکمل نہ کرسکا۔بلآخر2015 میں پاکستان نے مجبورا قطر سے گیس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس نئی صورتحال کی وجہ سے ایران کے ساتھ پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ کھٹائی اور مزید تاخیرکا شکار ہوا۔جہاں تک ایران کا تعلق ہے ایران نے 2017تا 2019 تک اپنے حصے کا کام مکمل کرلیا تھا جبکہ پاکستان نے اس حوالے سے کام کا آغاز 2013میں کیا گیا تھا لیکن امریکہ کی طرف سے دباؤ کے باعث اس منصوبے کو غیر مکمل چھوڑ دیا گیا تھا۔ ستمبر2013 میں پاکستان اور ایران کے درمیان ایک نیا معاہدہ طے پایا جس کے تحت پاکستان کو 2024 تک اپنے حصے کا کام مکمل کرنے کو کہا گیا۔ خیال رہے کہ مئی2023میں پاکستان قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان اپنے حصے کا کام مکمل کرنے ناکام رہا تو پاکستان کو 18ارب ڈالرز کی خطیر رقم اس منصوبے میں تاخیر کے باعث ادا کرنا پڑئے گی۔ لیکن زرائع کے مطابق یہ بات بھی اہم ہے کہ ایران نے فرنچ قانون کے تحت 18 ارب ڈالر جرمانے کا نوٹس واپس لینے کا عندیہ دیا اور یوں پاکستان 18 ارب ڈالر جرمانے کی ادائیگی سے بچ جائے گا۔ یہ بات اہم ہے کہ گیس پائپ منصوبے سے ایل این جی کے مقابلے میں ایران سے 750 ملین کیوبک فٹ گیس انتہائی سستی ملے گی اور پاکستان کو سالانہ 5 ارب ڈالر سے زائد بچت ہوگی۔ہماری رائے میں پاکستان کو اپنے مفادات کو مقدم رکھنے کی پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا اور یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو مشکلات کا شکار کرنے کی پالیسی جاری رکھی جبکہ اس کے برعکس بھارت کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی یکسر مختلف رہی۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ سے اپنی دوستی اور تعلقات کو مقدم رکھا،لیکن امریکہ کے دہرے معیار اور منافقانہ پالیسی کے باعث پاکستان معاشی طور پر عدم استحکام شکار رہا۔ اس حوالے سے نگران وفاقی وزیر توانائی محمد علی کا یہ کہنا کہ ایرانی بارڈر سے گوادر تک پائپ لائن بچھانے کا فیصلہ پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے، ایران سے ملنے والی سستی گیس سے صنعتوں کو خطیر فائدہ ہوگا۔ بلاشبہ قطر سے جو این ایل جی پاکستان لے رہا ہے وہ ایران کی گیس کے مقابلے بہت مہنگی ہے۔ امریکہ ہمیشہ کی طرح پاکستان کے مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے اس حوالے سے اپنی پالیسی پر بضد رہا لیکن بھارت کے لئے امریکہ کی پالیسی اور رویہ یکسر مختلف رہا۔واضح رہے کہ ایران، ترکی، عراق اور آذربائیجان کے ساتھ گیس کی خرید و فروخت کر رہا ہے جس پر پابندیاں لاگو نہیں۔لیکن یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک وقت میں امریکہ پاکستان کو اپنا پارٹنر ظاہر کرتا ہے لیکن عملی طور پر امریکہ کا ہر عمل پاکستان کے مفادات کے خلاف ہی ہوتا ہے۔ ہماری رائے میں اب پاکستان کو اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہونگے بصورت دیگر پاکستان کی معیشت کسی صورت مستحکم نہیں ہوسکے گی۔ بلاشبہ امریکہ پاکستان کو کسی صورت معاشی طور پر مستحکم نہیں ہونے دے گا۔ کیونکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ معاشی طور پر مستحکم اور مضبوط پاکستان امریکہ کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرئے گا، لہذا پاکستان کو قرضوں اور امداد کی دلدل میں جکڑا رکھا جائے تو امریکہ اپنے اہداف اس خطے میں حاصل کر سکے گا۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لانا ہوگی اور صرف اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔ اسی طرح چین اور پاکستان کے درمیان سی پیک منصوبہ بھی ایک اہم مثال ہے جو امریکہ کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے لیک ضروری ہوگا کہ پاکستان کو سی پیک منصوبے کے معاملے میں بھی امریکہ کی پالیسی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے اس منصوبے کی جلدتکمیل کو یقینی بنانا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں