وزیراعظم 0

نجکاری کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے،صرف ایسے اداروں کو ہی نجی تحویل میں دیا جائے جو حکومت کے لئے سفید ہاتھی بن چکے ہوں

نجکاری کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے،صرف ایسے اداروں کو ہی نجی تحویل میں دیا جائے جو حکومت کے لئے سفید ہاتھی بن چکے ہوں

گزشتہ روزوزیراعظم ہاؤس میں نجکاری کے حوالے سے منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے نجکاری کمیشن اور وزارت نجکاری کو ہدایت کی کہ کابینہ کی تشکیل کے ساتھ ہی پرائیویٹائزیشن سے متعلق زیرالتوا حل طلب مسائل پیش کئے جائیں تاکہ کابینہ ان پر فیصلہ کرے اور یہ معاملہ حل ہوسکے۔ نجکاری کا عمل برق رفتاربنانے کی ہدایت کرتے ہوئیوزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نجکاری کے ذمہ دار اداروں کی صلاحیت بڑھانے اور مطلوبہ استعداد حاصل کرنے کے فوری اقدامات کئے جائیں اور نجکاری کے عمل میں شامل تمام اداروں کی مکمل فہرست اور اس سے متعلق پیش رفت کی رپورٹ پیش کی جائے۔انہوں نے کہاکہ پہلے ہی اس معاملے میں بہت تاخیر ہوچکی ہے، مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔ وزیراعظم نے بجلی کمپنیوں کو صوبوں کے حوالے کرنے کی تجویز پر ایک جائزہ کمیٹی بھی تشکیل دینے کی ہدایت کی جو وزیراعظم کواپنی تجاویز پیش کریگی۔ ان کہنا تھا کہ نجکاری کے عمل کی تمام ذمہ داری نجکاری کمیشن اور وزارت نجکاری پر عائد ہوتی ہے اور اگر کہیں مسائل ہیں تو انہیں دور کرنا بھی وزارت اور نجکاری کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اگر صلاحیت اور استعداد کے مسائل ہیں تو انہیں فی الفور دور کیا جائے اور نجکاری کے عمل کی ادارہ جاتی سطح پر شفافیت یقینی بنائی جائے اور نگرانی کے عالمی معیار کے موثر اور آزمودہ طریقے اختیار کئے جائیں تاکہ کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔وزیراعظم نے کہاکہ خسارے میں چلنے والے اداروں کی بھاری قیمت ملک اور عوام ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اجلاس میں پی آئی اے، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، فرسٹ وومن بینک، روز ویلٹ ہوٹل، ہیوی الیکڑیکل کمپلیکس، بجلی کے کارخانوں اور تقسیم کار کمپنیوں، پاکستان سٹیل ملز کارپوریشن سمیت خساروں میں چلنے والے دیگر اداروں کی نجکاری کے عمل پر تازہ ترین صورتحال، اب تک کی پیش رفت اور حائل رکاوٹوں کا تفصیلی جائزہ لیاگیا۔ سیکرٹری وزارت نجکاری اور دیگر متعلقہ حکام نے بریفنگ دی۔اجلاس میں سینیٹر اسحاق ڈار،،مصدق ملک،شزہ فاطمہ خواجہ، رومینہ خورشید عالم، احد چیمہ، علی پرویز ملک، رانا احسان افضل، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر جہانزیب، گورنرسٹیٹ بینک، چیئرمین ایف بی آر، سیکریٹری نجکاری، سیکرٹری قانون سمیت اعلیٰ حکام شریک تھے۔ممتازبینکارمحمد اورنگزیب نے وڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔ ہماری رائے میں نجکاری کے حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی حکومت کی طرف سے پیشرفت کسی حد تک ایک اچھی کوشش ہے لیکن اس سارے عمل میں صرف ان اداروں کو ہی نجی تحویل میں دیا جائے جو حکومت اور عوام پر سفید ہاتھی بن کر اضافی بوجھ بن چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی ایسے ادارے کو جو منفعت بخش ہو ایسے ادارے کوکسی صورت نجی تحویل میں نہ دیا جائے اور یہ اہداف جیسا کہ وزیر اعظم نے اظہار کیا ہے کہ اس عمل میں ادارہ جاتی سطح پر شفافیت یقینی بنائی جائے،بلاشبہ نجکاری کے عمل کوشفاف اور صاف بنانا حکومت وقت، نجکاری کمشن اور وزارت نجکاری کی اولین ذمہ داری ہے۔بلاشبہ مختلف ایسے اداروں کی نجکاری کرنا حکومت کی مجبوری ہے لیکن بعض اداروں کی نجکاری سے جہاں حکومت سے بوجھ ہٹ جائے گا لیکن نجکاری کے بعد یہ ادارے اپنا منافع بڑھانے کیلے عوام پر بے پناہ بوجھ ڈال دیتے ہیں اب جیسا کی پی ٹی سی ایل کی کافی حد تک نجکاری ہوچکی ہے بلاشبہ بعض شعبوں میں اس ادارے کی استعداد کار بھی بڑھی ہے لیکن اس ادارے نے اپنے ریٹس میں ہوشرباء اضافہ کر کے عوام پر اضافی بوجھ ڈال دیا ہے۔ آئے روز پی ٹی سی ایل اپنی قیمتوں میں اضافہ کرتے نظر آتا ہے جب تک یہ ادارہ مکمل طور پر ایک حکومتی کارپوریشن تھا عوام سے بلات کی وصولی بھی سہولت کے ساتھ لی جاتی تھی اور دو ماہ تک کنیکشن منقطع نہیں کیے جاتے تھے لیکن اب تاریخ گزرنے کے ساتھ ہی نا دہندہ کا کنیکشن فوری طور پر تاریخ کے بعد معطل کر دیا جاتا ہے، اسی طرح بہت سے اداروں کی مثال دی جاسکتی ہے۔ سرکاری تحویل میں حکومتی اداروے بلاشبہ عوام کو کافی سہولت فراہم کرتے ہیں، لیکن نجکاری کی صورت میں مالکان کا مقصد جہاں ادارے کی ترقی اور معیار بہتر بنانا ہوتا ہے وہاں منافع میں اضافہ بھی ان کے پیش نظر ہوتا ہے بلاشبہ نج کاری سے ادارے کی استعداد کار بہتر ہوتی لیکن نجی مالکان بہتر سہولت کے بدلے اپنے منافع میں اضافہ سے عوام پر بوجھ ڈالنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ اس وقت وطن عزیز کی معاشی صورتحال کوئی اچھی نہیں اور مالی بحران اور قرضوں کے بوجھ کے باعث حکومت کے پاس کوئی اور چارہ کار نہیں کہ مختلف ایسے اداورں کو نجی تحویل میں دے دیا جائے جو خسارے میں چل رہے ہیں، لیکن اس کے لئے ضروری ہوگا کہ حکومت اس حوالے سے پسند اور نا پسند سے بالا تر ہوکر نجکاری کے عمل کی شفافیت کویقینی بنائے اور صرف ان ہی اداروں کو نجی تحویل میں دیا جائے جو خزانے پر بوجھ بن چکے ہیں۔ 70کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیرمین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید نے بہت سے نجی اداورں کو قومی تحویل میں لیا تھا اس تبدیلی سے بعض اداورں کی کارکردگی قدرے بہتر ہوئی لیکن بعض ادارے زوال اور انحاط پزیر ہوئے قومی تحویل میں لیے گئے بعض تعلیمی ادارے ابتری کا شکار ہوئے۔بلاشبہ پوری دنیا میں بہت سے بڑے ادارے نجی شعبے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جو ادارے سرکاری تحویل میں ہوتے ہیں ان کی کارکردگی بھی بہت بہتر اور اعلیٰ ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یونین بازی اور کام نہ کرنے کی لت کے باعث سرکاری اداروں کی حالت اکثر ابتر ہی رہتی ہے اور ملازمین اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے اپنی تنخواہوں میں اضافہ اور اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے یونین بازی اور سیاست کا سہارا لیکر حکومتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ من حیث القوم ہمارا مزاج بگڑ چکا ہے۔ ہماری رائے میں حکومت جن اداروں کو نجی شعبے میں دینا چاہتی ہے ضرور دے لیکن عوام کو بھی تحفظ دیا جائے کہ یہ ادارے عوام پر بلاوجہ اضافی بوجھ نہ ڈالیں اور اسی طرح قومی تحویل میں جو ادارے ہیں ان اداروں کی کارکردگی اور استعداد کار بہتر بنانے کے لئے ان اداروں پر اہل اور باصلاحیت افراد کو نگران مقرر کیا جائے۔ بلاشبہ قومی ادارے بھی حکومت اور عوام کے لیے ایک اثاثہ ہوتے ہیں اور اگر قومی اداروں کی کارکردگی پر درست انداز میں نظر رکھی گئی ہوتی تو کرپشن کے باعث یہ ادارے آج زوال پزیر نہ ہوتے اور نہ ہی آج حکومت کو ان اداروں کی نج کاری کرنا پڑتی۔ ایک وقت تھا جب دنیا میں پی آئی اے کا بڑا نام تھا اور اس ادارے میں ملازمت حاصل کرنا آسان کام نہ تھا اور اس قومی ائرلائن کا معیار اور مقام دنیا کی اکثر ائر لائنوں سے بہتر تھا لیکن آج اس ادارے کی زبوں حالی اپنے عروج پر ہونا یہ چایئے تھا کہ اس ادارے کو مسائل کی دلدل سے نکالا جاتا لیکنقابل افسوس بات ہے کہ آخر کار اس قومی ادارے اور اس کے اثاثوں کو نجی شعبے میں دیا جارہا ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت اور نجکاری کمشن اس سارے عمل کو شفاف بنائیں گے تاکہ جہاں حکومت کے خزانے سے اضافی بوجھ ختم ہو وہاں عوام کو بھی ریلیف مل سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں