ایف بی آر 0

ایف بی آر ٹیکسوں کی وصولی کا مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کیلئے ٹیکس فرینڈلی ماحول پیدا کرکے ہی ٹیکس نیٹ کو بڑھا سکتا ہے

ایف بی آر ٹیکسوں کی وصولی کا مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کیلئے ٹیکس فرینڈلی ماحول پیدا کرکے ہی ٹیکس نیٹ کو بڑھا سکتا ہے

آئی ایم ایف نے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکس کی شرح بڑھانے اور ٹیکس سلیب کی تعداد سات سے کم کرکے چار کرنے کی تجویز دے دی۔آئی ایم ایف کی اس تجویز کی منظوری کی صورت میں تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے دی گئی تجویز پر عمل درآمد سے چار کھرب اسی ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ پنشنرز کو نجی آجروں کی شراکت پر دی گئی ٹیکس چھوٹ بھی ختم کردی جائے۔آئی ایم ایف کی طرف سے دی جانے والی تجاویز کے تناظر میں کی گئی ورکنگ میں بتایا گیا ہے کہ اگر پرسنل انکم ٹیکس سے متعلق سفارشات پر پوری طرح عمل کیا جائے تو اس سے جی ڈی پی کا صفر اعشاریہ پانچ فیصد اضافی ریونیو حاصل ہو سکتا ہے۔آئی ایم ایف نے اس حوالے سے ایف بی آر کو مشورہ دیا ہے کہ ٹیکس وصولی کا ہدف مزید بڑھانے کے لئے کہ تنخواہ دار اورر غیر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ڈبل کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقے سے حالیہ 7سلیبس میں جو ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اسے بڑھا کر چار سلیبس کردیا جائے۔ہماری رائے میں ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنی اقساط واگز کرانے کے لئے قرض کے بدلے پوری پاکستانی قوم پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے کافیصلہ کر رکھا ہے۔ بنیادی طور پر جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے یہ ساری پاکستانی قوم پر اثر انداز ہوتی ہے، فرق صرف یہ ہے کہاپر کلاس اور زیادہ آمدنی والے افراد پر مہنگائی کا اثر زیادہ نہیں ہوتا جبکہ عام اور متوسط طبقے کو تو مہنگائی کے بوجھ نے مار ہی ڈالا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر نے جاری مال سال کے ابتدائی (جولائی تا فروری)تک 8ماہ میں اس وقت تک 215ارب روپے کا ٹیکس حاصل کیا ہے اور ایف بی آ ر کا تنخواہ دار طبقہ سے یہ ہدف رواں مالی سال میں 300ارب روپے حاصل کرنے کا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف کی سفارشات کی روشنی میں تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار دونوں طبقوں سے ٹیکس وصولی میں 500ارب کا اضافی ٹیکس حاصل ہوگا۔ عالمی مالیاتی ادارے کے اپنی وصولیوں کے اہداف اپنی جگہ لیکن مجموعی طور پر قرضوں کی اس دلدل آئی ایم ایف کی سفارشات اور ہدایات کی روشنی میں جو بھی اضافی بوجھ پڑتا ہے وہ عام شہریوں،متوستط اور کم آمدنی والے افراد پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط اور ہدایات کی روشنی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین ہوتا ہے اسی طرح بجلی اور گیس کے بلوں میں بے پناہ اضافہ بھی آئی ایم ایف کی ہدایات کے باعث ہی ہوتا رہا ہے جس کے باعث مہنگائی کا گراف تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ٹیکس چوری ایک عام بات ہے اور تجارت پیشہ افراد خاص طور پر بڑئے کاروبای مراکز اور ادارے اپنی انکم کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے اور یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کا نہ ہونا اور ٹیکس کی وصولی کا مطلوبہ ہدف پورا نہ ہونے میں محکمہ انکم ٹیکس کے اپنے لوگ ملوث ہوتے ہیں جس کے باعث ٹیکس کا نظام اس انداز میں مربوط اور فعال نہ ہوسکا جس کی ضرورت تھی بلاشبہ گزشتہ سالوں میں اس حوالے سے مثبت پیشرفت ضرور ہوئی ہے لیکن ہنوز بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے۔ ہماری رائے میں ہماری حکومتوں اور اب آئی ایم ایف کو بھی مالی ہدف حاصل کرنے کے لئے 25کروڑ عوام آسان اور سادہ ہدف لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے نے 25کروڑ عوام کا خون نچوڑنے کا عزم کر رکھا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود جہاں تک دیگر ٹیکسز کا معاملہ ہے ان میں دستاویزی ثبوتوں کا فقدان ہی رہتا ہے لیکن پاکستان میں تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس کٹوٹی پوری طرح دستاویزی ہوتی ہے اس میں کچھ بھی چھپایا نہیں جاسکتا۔ ہماری رائے میں اگر تنخواہ دار طبقہ سے ٹیکس وصولی بڑھانے کے لئے ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کرنی مقصود ہے تو اس کا اثر کم تنخواہ دار اور چھوٹے طبقے پر نہیں پڑنا چایئے، کیونکہ پہلے ہی کم آمدنی والاتنخواہ دار طبقہ مہنگائی کی چکی میں پس رہا۔ ہماری رائے میں ایف بی آر کو ٹیکس وصولی کے ہدف کو بڑھانے اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنے کیلئے حکمت عملی کے ساتھ چلنا ہوگا۔ پاکستان میں ایسے بہت سے کاروباری مراکز اور کاروباری ادارے ہیں ہیں جو ٹیکس نیٹ میں موجود نہیں، ضروری ہوگا کہ ایسے کاروبار اور مراکز کا تعین کیا جائے اور ابتدائی طور پر نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرکے معمولی نوعیت کا ٹیکس عائد کیا جائے اور لوگوں کو ٹیکس فرینڈلی ماحول مہیا کیا جائے اور انہیں ٹیکس کی ادائیگی کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس ریٹرن فائل کرنے اور ٹیکس کی ادائیگی کے لئے بخوشی تیار ہوں۔بلاشبہ موثر حکمت عملی اور مثبت اقدامات سے ہی نئے ٹیکس فائلرز اس نیٹ میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن ٹیکس کے خوف کا بت توڑ کر اور ٹیکس دوست ماحول مہیا کرکے ہی مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں