سی پی این ای 0

سی پی این ای کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس، میڈیا کی آزادی اور پرنٹ میڈیا کو درپیش معاشی مسائل پراظہار تشویش

سی پی این ای کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس، میڈیا کی آزادی اور پرنٹ میڈیا کو درپیش معاشی مسائل پراظہار تشویش
نئی حکومت آزادی اظہار پر پابندیوں کے حوالے سے صورتحال کا فوری جائزہ لے

کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز(سی پی این ای)کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس صدر ارشاد عارف کی زیر صدارت کراچی میں منعقد ہوا، اجلاس میں ملک میں میڈیا کی آزادی اور پرنٹ میڈیا کو درپیش معاشی مسائل کے حوالے سے شدید تشویش کا اظہار کیا گیا، صدر سی پی این ای ارشاد احمد عارف نے کہا کہ عبوری حکومت کے دور میں میڈیا مارشل لا ء ادوار سے زیادہ شدید قدغنوں کا شکار رہا۔آزادی صحافت اور آزادی اظہار پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ سینسر شپ عوام کے سچ جاننے کے بنیادی آئینی حق پر قدغن لگانے کے مترادف ہے ۔آئین کہ آرٹیکل 19 کے تحت آزادی اظہار ہر شہری کا حق ہے جسے سلب نہیں کیا جا سکتا ۔

نگراں حکومت میں صحافیوں کے خلاف پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے دوران ایف آئی آر کا اندراج ، پیکا جیسے کالے قوانین کے تحت صحافیوں عمران ریاض اور اسد طور کی گرفتاری ،انٹرنیٹ اور X کی۔ بندش جیسے اقدام قابل مذمت ہیں ،اجلاس میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے ایک قرار داد بھی پاس کی گئی جس میں کہا گیاکہ نئی حکومت آزادی صحافت اور آزادی اظہار پر پابندیوں کے حوالے سے صورتحال کا فوری جائزہ لے اور ان کے تدارک کے لیے فوری اقدامات کرے ۔میڈیا ریاست کا چوتھا اہم ترین ستون ہے اسے کمزور کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور میڈیا کے خلاف روا سلوک کو بند کیا جائے ،میڈیا کا جمہوریت کے استحکام کے لئے اہم کردار رہا ہے۔ میڈیا تمام تر قدغنوں کے باوجودذمہ دارانہ کردار ادا کر رہا ہے

نئی حکومت کو میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانا ہوگا۔ملک کو سیاسی ،معاشی اور دہشت گردی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے ایک مضبوط جمہوری نظام کے لئے میڈیا کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ نئی جمہوری حکومت کو چاہیے کہ میڈیا کو تمام پابندیوں سے آزاد کیا جائے۔قرارداد میں کہا گیاکہ ایسے لوگوں کا جو کسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ان کا دفاع نہیں کر سکتے ، قرارداد میں کہا گیا کہ میڈیا یونیفائیڈ کوڈ آف کنڈکٹ پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے سی پی این ای نے یونیفائیڈ کوڈ آف کنڈکٹ تیار کیا ہے جسے تمام صحافتی تنظیموں سے ڈسکس کرکے فائنل شکل دی جائے گی جبکہ سوشل میڈیا کے لئے علیحدہ سے ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے ۔اجلاس میں کہا گیا کہ سی پی این اور ایمنڈ نے دیگر صحافتی تنظیموں پی ایف یو جیز ،پریس کلبز اور رپورٹر فار پارلیمنٹ کے ساتھ مل کر کولیشن فار فری میڈیا کا اعلان کر دیا ہے تاکہ میڈیا کی آزادی کو درپیش چیلنجز کے خلاف مل کر جہدوجہد کی جائے ۔

اجلاس نے نگراں حکومت میں پرنٹ میڈیا کے ساتھ روا رکھے جانے والے بدترین سلوک پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت کے دورمیں پرنٹ میڈیا کو دانستہ نہ صرف بری طرح نظر انداز کیا گیا بلکہ معاشی طور پر بھی تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اجلاس میں مزید کہا کہ امید ہے کہ نو منتخب وفاقی اور صوبائی حکومتیں میڈیا سے خائف ہونے کے بجائے تعلقات کو بہتر بنائیں گی اور ماضی میں ادھورے رہ جانے والے وعدوں کو پورا کریں گی ۔ سینئر نائب صدر انور ساجدی نے کہا کہ ہمیں سوشل میڈیا کے معاملات میں الجھنے کے بجائے پرنٹ میڈیا کی بالا دستی اور وقار کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔سیکریٹری جنرل اعجاز الحق نے بتایا کہ عبوری حکومت کے دور میں وفاق اور صوبوں سب جگہ واجبات کی ادائیگی اور اخبارات کے اشتہاراتی کوانٹم ،ریجنل پریس کے اشتہارات کی شرح مکمل طور پر سرد مہری کا شکار رہی۔ اکثر اخبارات کو جاری اشتہارات جاری کرکے روک دیے جاتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس سلسلے میں سابق نگران وزیراعظم ،صوبائی وزیراعلی سمیت صوبائی وزیراطلاعات سے بھی ملاقاتیں کیں، جنہوں نے ہر بار اشتہاراتی کوانٹم ، وزیراعظم شہباز شریف کے اعلان کردہ اشتہاری نرخ میں 35فی صد اضافے اور اخبارات کے واجبات کی ادائیگیوں کی یقین دہانی کروائی لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا۔

نگران سندھ حکومت نے میڈیا کے لیے 2ارب روپے جاری کئے ،جبکہ پرنٹ میڈیا کے حصے میں صرف 15کروڑ روپے آئے تاہم سندھ اور بلوچستان میں کچھ ادائیگیاں ہوئیں جبکہ پنجاب، کے پی میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ،اب ہم وفاق سمیت تمام نو منتخب حکومتوں سے جلد ملاقات کرکے ان مسائل کو حل کروانے کی کوشش کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے اپنے گزشتہ دور حکومت کے آخری دو دنوں میں اخبارات و جرائد کے اشتہارات کی مد میں 35فیصد اضافے کی سمری منظور کی تھی لیکن ہماری بھرپور کوششوں کے باوجود سابق نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کے دور میں اس اضافے کا اطلاق نہیں ہوسکا۔ انہوں نے اشتہاری ایجنسی میڈاس کے اخبارات کو جاری بائونس چیکس پر کہاکہ اراکین کی متفقہ رائے ہے کہ اس کے خلاف فوری قانونی راستہ اختیار کیا جائے ، ہماری اس سلسلے میں تیاری مکمل ہے ۔نائب صدر سندھ عامر محمود نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور صحافیوں اور میڈیا ہائوسز کے خلاف اقدامات کے حوالے سے ہمیں یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے ہم جلد کولیشن فار فری میڈیا پلیٹ فارم سے میڈیا کی آزادی پر ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں لہذا ہم سوشل، ڈیجیٹل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی تقسیم میں پڑگئے تو جو قوتیں آج سوشل میڈیا کو نشانہ بنارہی ہیں،وہ کل پورے میڈیا پر بھی پابندیوں کے لیے مزید کالے قوانین بھی بنا سکتی ہیں اور معاشی طور پر اشتہاراتی واجبات کی عدم ادائیگیوں، غیر ضروری تاخیر اور کوانٹم میں کمی کا ٹول استعمال کرکے وہ ایسا کر بھی رہی ہیں۔ انہوں نے پاکستان میڈیا سمٹ کروانے کی بھی تجویز دی ۔ صدر پنجاب کمیٹی ایاز خان نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ میڈیا مخالف قوتوں کو مزید اسپیس نہ دیں ، ہم سمجھ سکتے ہیں کہ آگے کیا ہونے جارہا ہے لہذا سی پی این ای کو اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرنا ہوںگے۔

نائب صدر کے پی طاہر فاروق نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں اخبارات کے واجبات کی صورت حال تمام صوبوں سے بدتر ہے اور عبوری حکومت نے تو اسے بدترین کردیا۔ اشتہارات کے واجبات کے حصول کے لئے ہم مجبور ہوگئے تھے کہ واجبات کی ادائیگی کے لیے عدالت کا دروازہ کٹھکھٹائیں۔انہوں نے اجلاس کو بریف کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں سی پی این ای نے ہائیکورٹ پشاور میں ایک رٹ دائر کی ہوئی ہے جس کی دو سنوائی ہو چکی ہیں اور اب تیسری سنوائی 18اپریل کو ہے ۔ انہوں نے کے پی کے حکومت سے اخبارات کے واجبات کی ماہانہ ادائیگی کا مطالبہ بھی کیا ۔اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ نئے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف سے بھی ملاقات کی جائے گی اور ان کو بھی ایک مرتبہ پھر اخبارات کے مسائل کے حوالے سے آگاہ کیا جائے گا۔

نائب صدر بلوچستان عارف بلوچ نے کہا کہ خضدار، کوہلو اور ودھ میں صحافیوں کے خلاف ایف آئی آرز کا درج ہونے آزادی صحافت پر قابل مذمت حملہ ہے جو فی الفور ختم کی جانی چاہئیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ بلوچستان کے پرنٹ میڈیا کے حوالے سے کچھ مثبت معاشی پیشرفت بھی ہوئی ہے۔ اخبارات و جرائد کو جنوری 2024میں 16کروڑ ادا کیے گئے جبکہ فروری 2024 کی مد میں 21کروڑروپے کی ادائیگیوں کی منظور دے دی گئی ہے تاہم اشتہارات کے نرخوں میں 100فیصد اضافے سمیت لینگویج اخبارات کے ٹرانسلیشن اشتہارات کے نرخ میں 50 اضافی رقم اور ریجنل اخبارات کے اشتہارات کے نرخ میں 25 فیصد اضافی رقم کی بحالی کی ضرورت ہے۔

اجلاس میں ڈپٹی سیکریٹری جنرل حامد حسین عابدی، فنانس سیکریٹری غلام نبی چانڈیو، انفارمیشن سیکریٹری ڈاکٹر زبیر محمود، جوائنٹ سیکریٹری مقصود یوسفی، ممتاز احمد صادق، یحییٰ خان سدوزئی، ضیا تنولی، منیر احمد بلوچ، سینئر اراکین ایاز خان، ڈاکٹر جبار خٹک، قاضی اسد عابد، کاظم خان، عبدالخالق علی، فقیر منٹھار منگریو، سعید خاور، شیر محمد کھاوڑ، علی حمزہ افغان، تنویر شوکت، احمد شفیق، ذوالفقار احمد راحت، محمود عالم خالد، بشیر احمد میمن، عبدالسمیع منگریو، سلمان قریشی، حسن عباس، سردار محمد سراج، فضل حق، تزئین اختر، شہزاد امین، محمد اکمل چوہان، وقاص طارق فاروق، محمد اویس رازی اور منزہ سہام ، معارج فاروق، توفیق احمد اور رضیہ سلطانہ و دیگرنے شرکت کی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں