پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس 0

سوئی سدرن گیس کی طرف سے ٹیرف میں اضافہ عوام پر گیس بم گرانے کے مترادف ہے، بلاشبہ آئے روز بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے۔

سوئی سدرن گیس کی طرف سے ٹیرف میں اضافہ عوام پر گیس بم گرانے کے مترادف ہے، بلاشبہ آئے روز بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے۔

سوئی سدرن گیس کمپنی نے گیس صارفین پر ایک اور گیس بم گرانے کی تیاری کردی ہے، کمپنی نے یکم جولائی 2024 سے گیس کی قیمتوں میں 324 رپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافے کے لیے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)سے درخواست کردی ہے جس سے صارفین پر 79 ارب 63 کروڑ کا بوجھ پڑے گا۔اگلے روز میڈیا رپورٹ کے مطابق سوئی سدرن گیس کمپنی نے اوگرا سے نئی اوسط قیمت 1740.80 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کرنے کی درخواست کی ہے۔سوئی سدرن گیس کمپنی نے آئندہ مالی سال کے لیے درخواست میں مجموعی طور پر 79 ارب 63 کروڑ روپے کے ریونیو شارٹ فال کا تخمینہ لگایا ہے جس کے تحت مقامی گیس کی مد میں 56 ارب 69 کروڑ روپے جبکہ آر ایل این جی کی مد میں 22 ارب 93 کروڑ 50 لاکھ روپے کے ریونیو شارٹ فال کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔دوسری جانب اوگرا سوئی سدرن کی درخواست پر (آج) پیر کو کراچی میں اور 20 مارچ کو کوئٹہ میں سماعت کرے گا، اوگرا کی جانب سے سماعت کے بعد فیصلہ وفاقی حکومت کو بھجوایا جائے گا اور وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد اوگرا گیس کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔واضح رہے کہ رواں مالی سال کے دوران اب تک گیس کی قیمتوں میں 2 بار اضافہ کیا جاچکا ہے۔یکم نومبر 2023 سے کمرشل گیس ٹیرف میں تقریباً 200فیصد تک اور یکم فروری 2024 سے گھریلو صارفین کیلئے گیس67 فیصد تک مزید مہنگی کی گئی ہے، رواں مالی سال گیس کی قیمتوں میں اضافے کا گیس صارفین پر تقریباً 643ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا جاچکا ہے۔ہماری رائے میں یہ صورتحال اہل وطن خاص طور پر گیس صارفین کے لئے کسی گیس بم سے کم نہیں، ایسا لگتا ہے گیس، بجلی اور اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات کے اداروں نے عوام پر مختلف وقتوں میں تسلسل کے ساتھ مختلف بم گرانے کا قصد کر رکھا ہے۔ بلاشبہ یہ صورتحال عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی ہدایات اور احکام کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے۔ ان اداروں نے یوٹلیٹی بلوں میں ہوشرباء اضافے کے زریعے عوام کا بھرکس نکال رکھا ہے لیکن ان کا شارٹ فال کسی صورت کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ ایسا لگتا پاکستان سے گیس اور بجلی کی سہولت عام شہریوں کے لئے آخرکار شجر ممنوعہ ہو جائے گی۔ کیونکہ جس انداز میں ان سہولتوں کی قیمتوں میں تسلسل سے اضافہ کیا جارہا ہے اور شارٹ فال کا فرق عوام کا خون نچوڑ کر ہی پورا کیا جانا مقصود ہے تو ایسی صورت میں بجلی اور گیس کا استعمال عام صارف کے لئے ایک خواب بن جائے گا۔ملک میں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہے اور ہوشراباء مہنگائی کا جن جو پہلے سے ہی بوتل سے باہر ہے اور اس عفریت کو قابو کرنا فی الحال مشکل اور ناممکن لگتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ حقیقت میں آئی ایم ایف کے قرض اور اس کے عوض پاکستان کے عوام پر ہوشرباء مہنگائی اور یوٹیلیٹی بلوں میں بے پناہ اضافہ ہی اصل میں پاکستان کی معیشت کی تباہی اور بربادی کی وجہ اور جڑ ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت کے پاس صرف عوام پر بوجھ ڈالنے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں۔ گردشی قرضے ہوں یا پھرریو نیو شارٹ فال کا معاملہ ہو اس کا سارا بوجھ عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم عوام کی معاشی حالت جو پہلے سے ہی ابتر ہے اور مہنگائی کے باعث عوام کی قوت خرید جو پہلے سے ہی کم ہوچکی ہو تو تو ایسے میں اضافی بوجھ عوام کس طرح برداشت کر سکتی ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں جو پاکستان کو پتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتی تھیں ایسا لگتا ہے وہ قوتیں اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب نظر آتی ہیں۔ دنیا ترقی کی عروج پر ہے اور نت نئی ایجادات کے باعث ان ملکوں کی عوام کو بے پناہ جدید سہولتیں میسر ہورہی ہیں لیکن اس کے برعکس وطن عزیز پاکستان جو ایک ایٹمی قوت بھی ہے اور دفاعی طور ایک مضبوط ملک بھی لیکن دشمن طاقتیں اس ملک کو قرض اور امداد کے چکر میں رکھتے ہوئے اس ملک کی عوام کو ترقی اور جدید سہولتوں سے دور ہی نہیں بلکہ محروم رکھ کر مسائل اور مشکلات میں رکھنا چاہتی ہیں تاکہ پاکستان جدید ترقی کے عمل سے باہر رہے اور دنیا میں اس کا منفی تصور تخلیق کیا جائے۔ یہ معاملہ صرف بجلی اور گیس کی قیمتوں کاہی نہیں بلکہ یہ ایک مذموم عالمی سازش کا حصہ ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے اورسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کا آج تک پاکستان کی عوام کو کوئی فائدہ ہوا پہنچا ہے یا پھر پاکستان ان قرضوں کے باعث ترقی کی عوج سریا پر پہنچا تو جواب نفی میں ہوگا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان قرضوں سے پاکستان میں مہنگائی کا سیلاب آیا اور عالمی مالیاتی اداروں کی مالی معاملات میں بے جا مداخلت اور ہدایات کی وجہ سے مہنگائی، غربت اور بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ نے ملک کو غربت کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ ہماری رائے میں گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ کا رحجان اب ختم ہونا چایئے اور اس مقصد کے لئے آئی ایم ایف سے قرض کے لئے آئندہ کوئی نیا پروگرام شروع نہیں کیا جانا چایئے۔ بلاشبہ یہ ایک میٹھا زہر ہے جو پاکستان کو دیا جارہا ہے اگر ان قرضوں سے ملک بہتری کی طرف جاتا تو پھر یہ قرض با مقصد قرار دیے جاسکتے تھے لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان قرضوں سے پاکستان معاشی بحرانوں ہی کا شکار ہوا ہے اور ملک کی معیشت میں کوئی مثبت پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ بلاشبہ جس وقت تک ملک کوعالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے نجات نہیں دلائی جائے گی پاکستان کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوگی۔ دوسری طرف عوام کی معاشی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے حکومت کو بھی یوٹیلیٹی بلوں کی مد میں آئے روز اضافے کے رحجان کو ختم کرنا ہوگا۔ معاملہ صرف بجلی اور گیس تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اب تو پی ٹی سی ایل اور واسا نے بھی منہ کھو ل دیا ہے۔ پی ٹی سی ایل نے اپنی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے یہی نہیں واسا نے بھی عوام پر اپنی خدمات کے بلوں میں پانچ سو گناہ اضافہ کرکے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ بلاشبہ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو اس ملک میں عوام کا جینا ماحال ہوجائے گا۔حکومت کو عوام کی حالت زار پر رحم کھاتے ہوئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کو واپس لینا چایئے اور اسی طرح واسا کی طرف سے بلات پر پانچ گناہ کیا جانے والا اضافہ بھی پنجاب حکومت کو واپس لینا چایئے تاکہ مہنگائی کی چکی میں پسی عوام کو کچھ تو ریلیف مل سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں