وفاقی حکومت 0

وفاقی حکومت کا کفایت شعاری کا فیصلہ ایک مثبت پیشرف، لیکن ضروری ہوگا کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے کفایت شعاری کا اطلاق زندگی کے ہر شعبے میں ممکن بنایا جائے

وفاقی حکومت کا کفایت شعاری کا فیصلہ ایک مثبت پیشرف، لیکن ضروری ہوگا کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے کفایت شعاری کا اطلاق زندگی کے ہر شعبے میں ممکن بنایا جائے

پیر کے روزکابینہ ڈویژن نے وفاقی کابینہ کے فیصلوں کی روشنی میں کفایت شعاری پالیسی کا اجرا کر دیا،نئی پالیسی کے تحت وفاقی وزرا ء کے ایک سال میں 3 سے زیادہ بیرون ملک دوروں پر پابندی ہوگی، اِس پابندی کا اطلاق وزرائے مملکت، مشیر، معاونین اور سرکاری افسران پر بھی ہوگا۔سرکاری افسران کو ناگزیر وجوہات کی بنا پر بیرون ملک سفر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ بیک وقت وفاقی وزیر اور وفاقی سیکریٹری کے بیرون ملک دورے پر پابندی ہوگی، پالیسی کے تحت سرکاری افسران کے بیرون ملک دوروں کے دوران فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ بیرون ملک دوروں پر ٹیلی کانفرنسنگ کو ترجیح دی جائے۔ وفاقی وزرا، وزیر مملکت، مشیر، معاونین، سیکریٹریز، ایڈیشنل سیکریٹریز اور انچارج ڈویژنز کے سرکاری دورے وزیر اعظم کی منظوری سے مشروط ہوں گے۔ 20ویں یا اوپر کے گریڈ کے افسران اور تین ممبران کے وفد کی اجازت متعلقہ وزیر سے لی جائے گی۔ بیرون ملک دوروں کی تمام تفصیلات وزارت خارجہ کو فراہم کرنا لازمی ہوں گی۔ صدر اور چیف جسٹس فرسٹ کلاس سفری سہولیات کے مجاز ہوں گے جبکہ وزیر اعظم، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی بزنس کلاس کے مجاز ہوں گے۔ وزیر خارجہ، وفاقی وزرا اور وزیر مملکت بھی بزنس کلاس میں سفر کریں گے۔ہماری رائے ملک میں معاشی بحران کے تناظر میں حکومت کی طرف سے کفایت شعاری کی پالیسی کا اجراء بلاشبہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن ضروری ہوگا کہ اس پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔ اس وقت وطن عزیزپاکستان تاریخ کے برئے معاشی بحران کاشکار ہے اورملک کو اس بحران سے نکالنے اور عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے حکومت کو بہت سے مزید فیصلے کرنا ہونگے۔سرکاری دوروں پر پابندی اور خاص طور پر وزراء اور اعلیٰ سرکاری افسران کے لئے دوروں کی حد مقرر کرنا بھی ایک اچھی پیشرفت قرار دی جاسکتی ہے کیونکہ ماضی میں اکثر وزراء اور اعلیٰ سرکاری افسران کی طرف سے غیر ضروری دورے بھی کیے جاتے تھے اور اس طرح قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر لوٹا جاتا رہا ہے۔ ہماری رائے میں جہاں تک کفایت شعاری کا معاملہ ہے یہ صرف وفاقی کابینہ اور سرکاری افسران تک محدود نہیں رہنا چایئے بلکہ اس کا اطلاق ملک کے ہرسرکاری شعبے پر ہونا چایئے۔اس کفایت شعاری سے چند کروڑ روپے بچا کر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی، کیونکہ چند کروڑ کی بچت سے ملک معاشی بحران سے نجات حاصل نہیں کرسکتاالبتہ یہ پابندی مکمل طور پر عائد رہنی چایئے کیونکہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود کہ اقتدار میں رہتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، یہ روش کسی طور بھی جائز قرار نہیں دی جاسکتی۔ ہمارے ہاں حکومت میں شامل وزراء اور اعلیٰ سرکاری افسران کو جو اعلیٰ سہولتیں میسر ہوتی ہیں، جو شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور اخراجات ان کی رہائش گاہوں،سیکورٹی اور دیگر مدات پر خرچ کئے جاتے ہیں وہ پاکستان جیسے ایک مقروض اور غریب ملک کی اشرافیہ کو شایاں نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان تمام سہولتوں پر اربوں روپے سالانہ قومی خزانے سے خرچ کئے جاتے ہیں۔ یورپ، امریکہ اور دیگر ملکوں میں وزراء اور اعلیٰ افسران اپنا کام خود کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ہمارے ہاں وی آئی پی کلچر کے باعث قومی خزانے پر بے پناہ بوجھ ڈالا جاتا ہے جب تک وی آئی پی کلچر کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ بلاشبہ شہباز شریف حکومت کا کفایت شعاری کا فیصلہ ایک مثبت پیشرف ہے لیکن ضروری ہوگا کفایت شعاری کا اطلاق زندگی کے ہر شعبے میں ممکن بنایا جائے اور جس قدر ممکن ہوسکے بچت کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان اس وقت عالمی مالیاتی اداروں اور بیرونی قرضوں کی دلدل میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ملک معاشی بحران اور قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کے باعث مشکل مالی حالات سے دوچار ہے،ایسے میں ضروری ہوگا کہ غریب عوام پر بجلی، گیس یوٹیلیٹی بلوں اورپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ اور ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار کا سہارا لینے کی بجائے اشرافیہ سے بھی وطن عزیز کی بہتری کے لئے قربانی طلب کی جانی چایئے۔ اس وقت ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ مہنگائی اور بے روزگاری کے عفریت کے باعث غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بلاشبہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے کفایت شعاری کا فیصلہ ایک مثبت پیشرف اوراچھی کوشش ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہوگا کہ ان فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں کے نظام میں بہتری لائی جائے، ٹیکس دوست ماحول پیدا کرکے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے اور ایسے شعبے جو ٹیکس کی ادائیگی نہیں کرتے ان کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے۔درآمدات، برآمدات اور ادائیگیوں میں توازن پیدا کیا جائے اور غیر ضروری اخراجات پر قابو پایا جائے تو معاشی حالات میں بہتری ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ملک میں سیاسی استحکام اور ایک مستحکم سیاسی حکومت کا وجود بھی انتہائی ضروری اور اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ملک کی بہتری کے لئے ایک منتخب سیاسی حکومت ہی بہتر انداز میں فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔بلاشبہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے پوری قوم کو قربانی دینا ہوگی یہی حب الوطنی کا تقاضہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں