جسٹس قاضی فائز عیسی 0

پیسہ ہی ہرچیز ہے سب کچھ خرید لو۔ جسٹس قاضی فائز عیسی

پیسہ ہی ہرچیز ہے سب کچھ خرید لو۔ جسٹس قاضی فائز عیسی
ریونیو کوآپریٹو سوسائٹی میں بحریہ ٹائون کو لانے کی کیاضرورت تھی
جب ڈی ایچ اے یہ کام شروع کرے تویہ پریشان کن ہے،
وزیر اعلیٰ اورریاست یہ کام شروع کردے تویہ اور پریشان کن ہے

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پیسہ ہی ہرچیز ہے سب کچھ خرید لو۔ ریونیو کوآپریٹو سوسائٹی راولپنڈی براہ راست ڈی ایچ اے کودے دیتے، درمیان میں بحریہ ٹائون کو لانے کی کیاضرورت تھی، پرائیویٹ لوگ پیسے بنانے کے دھندے ہیں، جب ڈی ایچ اے یہ کام شروع کرے تویہ پریشان کن ہے، وزیر اعلیٰ اورریاست یہ کام شروع کردے تویہ پریشان کن ہے۔ پرویز الہی، پرویز مشرف، ملک ریاض حسین اور زاہد رفیق یہ پاکستان کے مالک ہیں، ہم ایگزیکٹو بورڈ نہیں اوپر تک جاتے ہیں او رہم بڑے لوگوں تک جاتے ہیںاور ان کوپکڑتے ہیں۔ کتنی خوبصورت بات ہے کہ جس سے معاہدہ کرنے جارہے ہیں اس کا بندہ اِدھر بھی بیٹھا ہواہے اوراُدھر بھی بیٹھا ہوا ہے، یہ تواپنے ہی آپ سے معاہدہ کررہے ہیں۔ جب پرائیویٹ ڈیلز کررہے ہیں توپھر کرنل کیوں لکھتے ہیں۔ پہیے لگانے والے، یہ محاورہ تو پاکستان میں چل رہاہے، اس میں توجیٹ انجن لگاہوا ہے فوری معاہدہ ہوگیا۔بحریہ ٹائون توپوچھیں ہی مت وہ تو پاکستان چلارہے ہیں، ریاست بھی آکر ان کی حمایت کرے گی، زاہد رفیق اوربحریہ ٹائون اس میں ملوث ہے، کون وزیر اعلیٰ تھا۔ وزیر اعلیٰ کون ہوتا ہے کہ اس طرح زمین الاٹ کرے، اس کے پاس کیا اختیا رہے، کیا معاملہ پارلیمنٹ لے گئے، خفیہ ڈیلز ہوتی ہیں، ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہمارے ایسا نہیں کیا جووزراء اعلیٰ کررہے ہیں۔ ،سیکرٹری فرخندہ وسیم افضل نے لکھا کہ سارا قانون ٹوکری میں پھینک دیں، یہ ہم پر لاگونہیں ہوتا، پورے کا پوراقانون ہم پر لاگونہیںہوتا، اس کو پادشاہت کہتے ہیں، شاہد بادشاہ بھی ایسے کام نہ کرتے ہیں۔ طاقتور بلڈرز کی آواز اقتدار کے ایوانوں میں سنی جاتی ہے اور غریب کی آواز نہیں سنی جاتی۔بیوروکرسی وزیر اعلیٰ کے تابع ہوچکی ہے، اوپر سے حکم آتا ہے یہ سمر ی بھیجو۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ملک احمد نواز، ریونیوایمپلائز کوآپریٹو ہائوسنگ لمیڈ (آرای سی ایچ ایس)راولپنڈی، چوہدری نصرت حیات خان ، ریاض الدین احمد اوردیگر کی جانب سے بحریہ ٹائون راولپنڈی اوردیگر کے خلاف دائر درخواستوںپر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ بحریہ ٹاون کے ساتھ ریونیو کوآپریٹو سوسائٹی (آر ای سی ایچ ایس)کے انضمام کا کیس براہ راست دکھایا جائے تاکہ پاکستان کے عوام کو پتا چلے کہ معاملات کیسے چلائے جارہے ہیں۔ درخواست گزاروں اور مدعاعلیحان کی جانب سے حسن رضا پاشا، راشد محمود سندھو،سردار عمر اسلم خان، آفتاب عالم یاسر اوردیگر پیش ہوئے۔ جبکہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق بھی عدالتی نوٹس پر پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے ڈی ایچ اے کے وکیل پر شدید برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک کام کریں جھوت نہ بولیں، شہداء کانام نہ لیں، شہداء کا نام لے کران کے پیچھے مت چھپیں، سیدھا، سیدھادھندہ کررہے ہیں، شہداء کانام لے ان کی تذلیل نہ کریں،شہداء کی عزت ہم کریں گے،بحریہ نے بھی شہداء کے لئے کیا، آپ نے بھی شہداء کے لئے کیا، پلیز جھوٹ بولنا چھوڑ دیں، شہداء کے نام پر کتنا رس نکالیں گے، اگر دوبارہ شہداء کانام لیا توہم توہین عدالت کانوٹس دیں گے، وزیر اعلیٰ کون ہوتا ہے کہ اس طرح زمین الاٹ کرے، اس کے پاس کیا اختیا رہے، کیا معاملہ پارلیمنٹ لے گئے، خفیہ ڈیلز ہوتی ہیں، ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہمارے ایسا نہیں کیا جووزراء اعلیٰ کررہے ہیں، کیوں پبلک میں ایسی ڈیلز نہیں آتیں، میڈیا میں دکھادیں، بحریہ ٹائون توپوچھیں ہی مت وہ تو پاکستان چلارہے ہیں، ریاست بھی آکر ان کی حمایت کرے گی، زاہد رفیق اوربحریہ ٹائون اس میں ملوث ہے، کون وزیر اعلیٰ تھا۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ اس وقت چوہدری پرویز الہیٰ وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ نے ساری خرابی پیدا کی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ جس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے اس کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہیئے،ذاتی طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کو ذمہ دار ٹھرایا جاناچاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کو دھندہ نہیں کہتے تواورکیا کہتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 100روپے کے اسٹام پیپر پر سارابکا ،پیسہ ہی ہرچیز ہے سب کچھ خرید لو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ لوگ بہت طاقتور ہیں، انہوں نے سب خریدا ہوا ہے، میڈیا پر بھی ان کے خلاف خبر نہیں چلتی ہے، آج کل میڈیا بھی خرید لیتے ہیں، خبر بھی نہیں چلے گی،کیا ہم کاروائی کوبراہ راست دکھائیں۔

بحریہ ٹائون کے وکیل حسن رضا پاشا نے براہ راست دکھانے کی مخالفت کی جبکہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ یہ براہ راست دکھانا چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم ابھی اس کیس کافیصلہ نہیں کررہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ افتخار علی خان ڈی ایچ اے کاایڈمنٹریٹر کون ہے، ایگزیکٹو بورڈ کیاہے، اُس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف کا نام بتائیں۔اس پر عدالت کوبتایا گیا کہ اس وقت پرویز مشرف آرمی چیف تھے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے سپہ سالار ہیں،پرویز الہی، پرویز مشرف، ملک ریاض حسین اور زاہد رفیق یہ پاکستان کے مالک ہیں، ہم ایگزیکٹو بورڈ نہیں اوپر تک جاتے ہیں او رہم بڑے لوگوں تک جاتے ہیںاور ان کوپکڑتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ چیز ختم کیسے ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریونیو کوآپریٹو سوسائٹی براہ راست ڈی ایچ اے کودے دیتے درمیان میں بحریہ ٹائون کو لانے کی کیاضرورت تھی، پرائیویٹ لوگ پیسے بنانے کے دھندے ہیں، جب ڈی ایچ اے یہ کام شروع کرے تویہ پریشان کن ہے، وزیر اعلیٰ اورریاست یہ کام شروع کردے تویہ پریشان کن ہے۔

خالد اسحاق کا کہنا تھا کہ یہ قانون کی عملداری کا معاملہ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا وزیراعلیٰ کے پاس سوسائٹی کی زمین بحریہ تائون کودینے کااختیار تھا۔ عدالتی وقفہ کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے لئے سوال چھوڑ کر گئے تھے۔

اس پر بحریہ ٹائون کے وکیل کا کہنا تھا کہ 1989میں سوسائٹی وجود میں آئی تھی،2005میں انضمام ہوا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ جب سوسائٹی وجود میں آئی تویہ زمین کہاں سے آئی، کیا یہ خریدی گئی تھی۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ خریدی گئی تھی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ریونیو محکمہ کے ملازمین کی سوسائٹی تھی، ملازمین نے سوسائٹی تعمیر کے لئے 16کروڑ روپے اکٹھے کئے، کل 2882کنال زمین تھی جس میں سے 2833کنان بحریہ ٹائون کو منتقل ہوئی اور پھر ڈی ایچ اے کو ٹرانسفر ہوئی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کرنل عبداللہ صدیق ایڈمنٹریٹر تھے وہ ریٹائرڈ تھے یا حاضر سروس تھے، ان کا انتخاب کیوں کیا گیا، کیا سوسائٹی کے معاملات کو وائنڈ اپ کرنے کے لئے ایڈمنسٹریرآیٹر لگایا گیا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ سوسائٹی کی جنرل میٹنگ ہوئی جس میں 304ممبران نے شرکت کی جن میں صرف 14نے انضمام کی مخالفت کی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سوسائٹی رولز میں انضمام کی پاور ہے کہ نہیں۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ پاور ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مان لیجئے نہیں ہے۔

جسٹس عرفان سعات خان کاکہنا تھاکہ 10ستمبر2004کو کرنل (ر)عبداللہ صدیق کی مدت ملازمت ختم ہوگئی تھی، یہ کس حیثیت میں کاروائی کال کرسکتے تھے اور زیر تجویز نکات پر روشنی ڈال سکتے تھے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بار، بار ہم پوچھ رہے ہیں کہ فائونڈنگ دستاویز یا قانون میں دکھادیں۔ جسٹس عرفان سعاد ت خان کا کہنا تھا کہ ایس ای سی پی نے ان کے خلاف کوئی ایکشن لی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ دکھادیں کہ سوسائٹی پرائیویٹ کمپنی میں نضمام کرسکتی ہے، آپ ہمارے ساتھ مذاق تونہیں کررہے، لگ رہا ہے مذاق کررہے ہی، سوسائٹیز ایکٹ 1925میں بنا تھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا سیکرٹری اتنے پڑھے لکھے ہیں،سیکرٹری فرخندہ وسیم افضل نے لکھا کہ سارا قانون ٹوکری میں پھینک دیں، یہ ہم پر لاگونہیں ہوتا، پورے کا پوراقانون ہم پر لاگونہیںہوتا، اس کو پادشاہت کہتے ہیں، شاہد بادشاہ بھی ایسے کام نہ کرتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم قانون کی حد تک باتیں کہیں گے اورکچھ نہیں کہیں گے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ کوآپریٹوز کے اس وقت کے وزیر ملک محمدانور نے اعتراض کیا تھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیر نے جو کہا تھا کہ یہ غلط ہے، یہ کہاں لکھا ہے۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ یہ کہیں نہیں لکھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیر نے لینڈ مافیا کالفظ استعمال کیا، کیا وزیر کی بات پر وزارت قانون سے ایڈوائس لی تھی، کیا وزیر باالکل غلط بات کررہے ہیں، یہ بادشاہت کانظام ہے، چیف سیکرٹری وزیر کو نظرانداز کررہا ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ نے چیف سیکرٹری کی سفارشات کی منظوری دی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ پرنسپل سیکرٹری جی ایم سکندر تھے۔ اس موقع پر خالد اسحاق کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے پرنسپل سیکرٹری سمری پر دستخط کرتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے دستخط کدھرہیں۔ دستخط نہیں کئے کہ کل کو پھنس جائوں گا، بس جی وزیر اعلیٰ نے منظورکردی، وزیر اعلیٰ کی منظوری کی پاور کدھر ہے،صوبائی حکومت لکھا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کتنی خوبصورت بات ہے کہ جس سے معاہدہ کرنے جارہے ہیں اس کا بندہ اِدھر بھی بیٹھا ہواہے اوراُدھر بھی بیٹھا ہوا ہے، یہ تواپنے ہی آپ سے معاہدہ کررہے ہیں، وزیر اعلیٰ کو اتنی فکر تھی کہ اُن کابندہ کمیٹی میں شامل کردیا، کرنل (ر)سعید اختر بحریہ ٹائون اورلیگل آفیسر بحریہ ٹائون آپس میں ہی بیٹھ کر سودہ کررہے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 2005میں حکمران کون تھا، اس پر خالد اسحاق کاکہنا تھا کہ ویز اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ تھے اور وزیر اعظم شوکت عزیز تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب پرائیویٹ ڈیلز کررہے ہیں توپھر کرنل کیوں لکھتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کو حکومت اورپنجاب کی فکر نہیں بلکہ بحریہ ٹائون کی فکر ہے کہ اُس کا نمائندہ لازمی بیٹھے، وزیر اعلیٰ کو توچاہیئے تھا کہ سیکرٹری خزانہ یا کوئی اورافسر پنجاب حکومت کا بٹھاتے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا اس کا شتہار دیا گیا تھا، ہوسکتا ہے اس سے بہتر بلڈر ہوتے، ہوسکتا ہے بہتر ٹرمز مل جاتیں، پہلے ہی فیصلہ کرلیا کہ اس کو بیچنا ہے، کیا یہ فیرء ٹرانزایکشن ہے، ہر موڑ پر کوئی صیح کام نہیں ہوا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکم آگیا دربار سے وزیراعلیٰ کاکردیا، جن سے معاہد ہ کرنے جارہے ہیں ان کے تین لوگوں کو کمیٹی میں بٹھادیا، پہلے دن ہی فیصلہ کرلیا کہ ان سے معاہدہ کرنا ہے۔ وکیل بحریہ ٹائون کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹائون نے ساڑھے تین کروڑ کانقصان برداشت کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ پریشان کن ہے، بحریہ نے بھی اپنے پاس نہیں رکھااورآگے بیچ دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہیے لگانے والے، یہ محاورہ تو پاکستان میں چل رہاہے، اس میں توجیٹ انجن لگاہوا ہے فوری معاہدہ ہوگیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کوئی ٹیکس ادانہیںکیا کوئی سٹیمپ ڈیوٹی ادانہیںکی۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ اس وقت 4فیصد سٹیمپ ڈیوٹی تھی جس کی شرح تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اچھی بات ہے کہ لوگوں کو پتا چلے کہ کام کیسے ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپنے لیٹر ہیڈ پر منٹوں میں کام ہوگیا، ہم سے مذاق کرنے آئے ہیں، اس پر ہم روئیں یا ہنسیں، پانچ سال کی گارنٹی دے رہے ہیں پھر آگے کیسے بیچ رہے ہیں،ہمارے سامنے لوگ آئے کیوںہیں۔

خالد اسحاق کا کہنا تھا کہ 2012میں سوسائٹی کورجسٹرار نے بحال کردیا تھا۔ حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ 60لوگ ہیںجنہوں نے ہم سے رابطہ نہیں کیا یا وہ پلاٹ لینے پر راضی نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پیسے کیوں لیں، پلاٹ کیوںنہ لیں۔ درخواست گزاروںکے وکیل عمر اسلم خان کا کہنا تھا کہ ہم پلاٹ لیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں کسی غیر قانونی آرڈر کاحصہ نہیں بنوں گا۔

بحریہ تائون وکیل کاکہناتھا کہ ہائی کورٹ میں ان کے پیسے جمع ہیں۔ عمر اسلم خان کا کہنا تھا کہ پلاٹ وہاں پر چاہیں یہ ہمیں دوردرازجگہوں پر پلاٹ دے رہے ہیں۔ عمراسلم خان کا کہنا تھا کہ 60لاکھ روپے ایک کنال کی قیمت دی، اس وقت 8لاکھ روپے فی مرلہ قیمت تھی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پیسے ایسے ہی پڑے ہیں یا کہیں سرمایا کاری کی۔ وکیل بحریہ ٹائون کا کہنا تھا کہ 95فیصد لوگوں پیسے یا پلاٹ لے لیئے تھے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ نہ ہوکہ ایک، دولوگوں کی وجہ سے بڑے مسئلے کھڑے ہوجائیں، کیا عدالت سے باہر افہام وتفہیم سے معاملہ حل ہوسکتا ہے۔ اس پر عمر اسلم خان کا کہنا تھا کہ ہم تیار ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم عدالت کا ٹھپہ نہیں لگائیں گے، کچھ لے دے کر کے معاملہ حل کرلیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا عمراسلم خان، آفتاب عالم یاسر، حسن رجا پاشا کے بیٹھ کر معاملہ حل کریں، حسن رضاپاشاسینئر ہیں یہ گریس شوکریں۔

جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ جس جگہ درخواست گزاروں کا پلاٹ تھا اس کے حساب سے رقم اداکریں ایسا نہ ہوکہ بی ایم ڈبلیو کی جگہ کلٹس دے دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈیفنس کیوں آتا ہے بیچ میں، اس معاہدے کا مطلب مجھے نہیں پتاسمجھادیں، اسٹامپ پیپرکس نے خریدا، بیچ میں پیڑوٹریڈ کیوں آگیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کاکردارامین کاہے، آپ اپنی امانت آگے کیسے دے رہے ہیں۔، کتنے قانون پاکستان کے توڑیں گے،کیا یہ زرعی زمین تھی، یہ زرعی زمین تھی اس کو کمرشلہ اورشہری استعمال کے حوالہ سے نوٹیفیکیشن دکھائیں، پوری سوسائٹی غیر قانونی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ پر پاکستان کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتاچارجز اداکرنے کاثبوت اورنوٹیفکیشن دکھائیں، پاکستان خوراک میں خودکفیل تھا اب نہیں رہے گا، ساری غیر قانونی ہاوئسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں اورزرعی زمین کوکمرشل مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ کوئی لسٹ بتائیں کہ کہ کتنے قوانین کی خلاف ورزیاں کی ہیں، کیسے ڈی ایچ اے اوربحریہ جاکرزمین حاصل کرکے کمرشل زمین میں تبدیل کرتے ہی، حکومت کدھر ہے جو آبادی بڑھ رہی ہے اس کو کون فیڈ کرے گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کسی قانون کے طالب علم کودیں تو قانون کی خلاف ورزیوں پر پورا تھیسز بناسکتا ہے۔

چیف جسٹس کا ڈی ایچ اے کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ پورے پاکستان کی تباہی کررہے ہو،کیوں پاکستان کوتباہ کررہے ہو، پیسے کی حوس ۔

چیف جسٹس کا کہناتھا کہ آج اخبار میں آیا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے اعتبار سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، ہمارے ادارے کی بھی آزادی کے حوالہ سے ساکھ اچھی نہیں تاہم اس کو ہم بہتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نہ پاکستان میں پیٹرول ہے، نہ گندم ہے اور نہ چاول رہے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹیکس کے قوانین ڈی ایچ اے پر لاگوہوتے ہیں کہ نہیں، 3400کنال زمین خریدی ایک روپیہ ٹیکس نہیں دیا، پرویز مشرف سے ٹیکس سے استثنیٰ کے حوالہ سے ایک آرڈیننس پاس کروالیتے۔

چیف جسٹس کا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آگے بڑھنے کا طریقہ کیا ہے۔

خالد اسحاق کاکہنا تھا کہ جن لوگوں نے یہ کیا ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ہمارے سامنے نہیں حکومت کاروائی کرنا چاہتی ہے توکرے، سپریم کورٹ کا نام استعمال کیئے بغیر پنجاب حکومت جو کچھ کرنا چاہتی کرے۔

چیف جسٹس کا درخواست گزاروں اور بحریہ ٹائون کے وکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عید کے بعد ہم سماعت کریں گے، میٹنگ کریں اور جیسے چاہیں معاملہ حل کریں۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھاکہ سپریم کورٹ نے 16جنوری کی سماعت کے دوران 8 سوال اٹھائے تھے۔ اس سوالات کی روشنی میں رجسٹرارکوآپریٹو سوسائیٹیز، پنجاب حکومت، ڈی ایچ اے اوربحریہ ٹائون نے جواب جمع کروائے۔

کیا زرعی زمین رہائشی اور کمرشل مقاصد کے لئے استعمال ہوسکتی ہے۔ کیا ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ وہ فوڈ سیکیورٹی کویقینی بنائے۔ حکومت کاکام زرعی زمین کاتحفظ کرنا ہے۔ یہ پالیسی کامعاملہ ہے اوراس حوالہ سے حکومت نے سوچنا ہے، ہم یقینی بنائیں گے کہ حکومت اس حوالہ سے سوچے، پاکستان گندم برآمدکرتا تھا اب درآمد کرتا ہے۔

طاقتور بلڈرز کی آواز اقتدار کے ایوانوں میں سنی جاتی ہے اور غریب کی آواز نہیں سنی جاتی۔بیوروکرسی وزیر اعلیٰ کے تابع ہوچکی ہے، اوپر سے حکم آتا ہے یہ سمر ی بھیجو۔ بعد ازاں زرعی زمین کو کمرشل میں بدلنے پر بحریہ ٹائو ن اور ڈی ایچ اے سے جواب طلب کرتے ہوئے عدالت نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں