غزہ 0

گزشتہ 6مہینوں میں غزہ میں صہیونی اسرائیل کی بربریت کے باعث 32ہزا رفلسطینیوں کی شہادت عالمی قوتوں اورعالم اسلام کی قیادت کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چایئے

گزشتہ 6مہینوں میں غزہ میں صہیونی اسرائیل کی بربریت کے باعث 32ہزا رفلسطینیوں کی شہادت عالمی قوتوں اورعالم اسلام کی قیادت کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چایئے

غزہ میں صہیونی اسرائیلی بربریت کا سلسلہ انتہا کو پہنچ گیا،بدھ کے روز امداد تقسیم کرنے والی ٹیم پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 23 افراد شہید ہو گئے۔عرب میڈیا کے مطابق فلسطینی نیوزایجنسی نے مقامی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وسطی غزہ میں نصیرات پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 27 ہو گئی ہے۔ادھر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ غزہ کی آبادی اب 100 فیصد شدید خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے، تاریخ میں اس طرح کی یہ پہلی مثال ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاس کی ترجمان کرائن جین پیئر نے غزہ میں قحط کی خبروں کے بارے میں گہری تشویش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی اور اسرائیلی حکام ممکنہ طور پر اگلے ہفتے کے اوائل میں واشنگٹن میں ملاقات کریں گے جس میں رفح میں اسرائیلی فوجی آپریشن پر بات چیت ہوگی۔ادھراسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ حماس کو تباہ کرنے کے لیے رفح میں زمینی آپریشن ضروری ہے۔عرب میڈیا کے مطابق نیتن یاہو نے کہا کہ امریکی صدر بائیڈن پر اسرائیلی موقف اچھی طرح واضح کر دیا، رفح میں حماس بٹالین کے پوری طرح خاتمے کیلئے پرعزم ہیں، نیتن یاہو کے مطابق حماس بٹالین خاتمے کیلئے رفح میں زمینی آپریشن کے سوا کوئی راستہ نہیں۔یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ 7اکتوبر2023 سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 31 ہزار819 فلسطینی شہید اور 73 ہزار934 زخمی ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں فلسطینی بے گھر اورقحط کا شکار ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور امریکی صدر جو بائیڈن کی گذشتہ روز ٹیلیفون پر بات ہوئی تھی، امریکی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم سے رفح میں زمینی آپریشن پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ہماری رائے میں جو شیطانی کھیل اور بربریت فلسطینیوں کے خلاف غزہ میں جاری ہے یہ امریکہ اور صہیونی اسرائیل کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ اسرائیل اس قدر منہ زور ہوجائے کہ وہ امریکی صدر کی بات کو رد کرتے ہوئے خونی کھیل جاری رکھ سکے۔ بلاشبہ امریکہ کی معیشت مکمل طور پر یہودیوں کے زیر تسلط ہے لیکن امریکہ بنیادی طور پر صہیونی اسرائیل کا گارڈ فادر ہے اور عالمی سطح پر اسرائیل کے مفادات دنیا کے ہر فورم میں امریکہ ہی محفوظ بناتا ہے۔ جہاں تک غزہ میں اسرائیلی فوج کے شیطانی کھیل اور ظلم اور بربریت کا معاملہ ہے یہ طاغوتی قوتوں کے عالم اسلام کے خلاف ایک مکروہ منصوبے کا حصہ ہے۔ بلاشبہ امریکہ اس جنگ کو رکوانے کی صلاحیت اور طاقت رکھتا ہے لیکن نیتن یاہو کے مطلوبہ اہداف کے حصول تک یہ نورا کشتی جاری رہے گی۔ لیکن اس ساری صورتحال میں امت مسلمہ،او آئی سی اور اسلامی ملکوں کی قیادت کا کردار انتہائی افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔ اسلامی امت کی قیادت کو بلاشبہ اس حقیقت کا ادارک ہوگا کہ یہ صورتحال اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصوبے کی طرف ایک اہم قدم ہے اور گرینڈ اسرائیل منصوبے میں صہیونی اسرائیل کو امریکہ کی بھرپور مدد اور تعاون حاصل ہے۔ اگر آج بھی غیرت مسلم خواب خرگوش سے بیدار نہ ہوئی تو عرب دنیا میں اسرائیلی منصوبے کو کامیاب ہونے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔ انتہائی شرم اور بے حسی کا عالم ہے کہ مسلمانوں کا قبلہ اول صہیونیوں کے قبضے میں ہے اور رمضان المبارک مقدس مہینے میں صہیونی اسرائیل کی درندہ صفت افواج جس طرح مسجد اقصیٰ کا تقدس مجروح اوربے گناہ فلسطینیوں، خاص طور پر بچوں اور خواتین کا قتل عام کررہی ہیں نا صرف انسانیت کے نام نہاد ٹھیکیداروں ک بلکہ عالم اسلام کی قیادت کے چہروں پر بد نما داغ ہے۔ہماری رائے میں اس ساری صورتحال کی جہاں امریکہ اور دیگر عالمی قوتیں ذمہ دار ہیں وہاں عالم اسلام کی قیادت کی غفلت، لاپروائی اور اپنے مفادات کے لئے منافقانہ روش بھی ایک عنصر ہے جس کی وجہ سے صہیونی اسرائیل کو نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کرنے کی چھٹی اور لائسنس مل گیا ہے۔ ہماری رائے میں اگر اقوام متحدہ کا ادارہ اور عالمی قوتیں اسرائیل اور بھارت کے مکروہ توسیع پسندانہ عزائم کو روکنے میں ناکام ہوئے تو تیسری عالمی جنگ کو روکنا اور دنیا کو تباہی اور بربادی سے محفوظ بنانا ناممکن ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں