، نواز شریف کسان کارڈ 0

پنجاب حکومت کی طرف سے زراعت اور کاشتکار کی ترقی کے لئے زرعی اصلاحات، نواز شریف کسان کارڈ کے اجراء کا فیصلہ قابل ستائش بلاشبہ ان فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنانے سے مثبت اثرات مرتب ہونگے

پنجاب حکومت کی طرف سے زراعت اور کاشتکار کی ترقی کے لئے زرعی اصلاحات، نواز شریف کسان کارڈ کے اجراء کا فیصلہ قابل ستائش بلاشبہ ان فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنانے سے مثبت اثرات مرتب ہونگے

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ”نوازشریف کسان کارڈ“کی منظوری دے دی۔گزشتہ روزوزیراعلیٰ مریم نواز کی زیر صدارت زرعی اصلاحات کے حوالے سے خصوصی اجلاس ہوا جس میں پنجاب سیڈ کارپوریشن اور پنجاب ایگری ریسرچ بورڈ کی تشکیل نو اور زرعی زمین کا رہائشی مقاصد کے طور پر استعمال روکنے کیلئے قانون لانے کی تجویز کا جائزہ لیا گیا۔اس موقع پر وزیر اعلیٰ مریم نوازکا کہنا تھا کہ کسان کارڈ کے ذریعے 5 لاکھ چھوٹے کاشتکاروں کو آسان شرائط پر ایک سال میں 150 ارب روپے کا قرضہ دیا جائے گا، اور بہترین بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات کی خریداری کیلئے کاشتکاروں کو 30 ہزار روپے فی ایکڑ زرعی قرض دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کسان کارڈ کے ذریعے مختلف اقسام کی سبسڈی بھی دی جائے گی، پنجاب بھر میں نجی شعبے کے اشتراک سے ماڈل ایگریکلچر سنٹرز بنائے جائیں گے، ماڈل ایگریکلچر سنٹرز پرجدید زرعی مشینری، ٹریننگ، پیسٹی سائیڈ بیج اور نمائشی پلاٹ بنائے جائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ پہلے فیز میں ہر ضلع میں ایک ماڈل ایگریکلچر سنٹر بنے گا، کاشتکاروں کو جعلی کھاد، ادویات سے چھٹکارا ملے گا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کو ہر فصل کی پیداوار اور ڈیمانڈ کا مکمل ڈیٹا مرتب کرنے کی ہدایت کی، اجلاس میں کاٹن، گندم اور چاول کی فصل پر ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کیلئے سٹیٹ آف دی آرٹ سنٹر آف ایکسیلنس بنانے کی منظوری بھی دی گئی۔اجلاس کے دوران سنٹر آف ایکسیلنس کے انتظامی امور بورڈ کے ذریعے کنٹرول کرنے اور ریسرچ سنٹر کو ریجنل یونیورسٹیز سے لنک کرنے پر اتفاق ہوا جبکہ چین کے تعاون سے ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد میں 2 ارب روپے کی لاگت سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔پاک چائنہ آر اینڈ ڈی سنٹر میں جینوم سنٹر، جرم پلازم ریسورس، سپیڈ بریڈنگ اور کلائمیٹ چینج پر ریسرچ کی سہولت ہوگی، جعلی زرعی ادویات اور کھاد کی فروخت روکنے کیلئے ایگریکلچر پیسٹی سائیڈ ایکٹ اور فرٹیلائزرز کنٹرول ایکٹ میں ترامیم کی جائیں گی۔اجلاس میں ایگریکلچرل ایکسٹنشن ونگ کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے اور 500 ایگریکلچر گریجوایٹس کی بھرتی پر اتفاق ہوا۔ہماری رائے میں زراعت اور کسان کی ترقی کے حوالے سے پنجاب میں اصلاحات اور بہتری کے لئے کیے جانے والے اقدامات بلاشبہ اہمیت کے حامل ہیں اور اس سے زرعی پیداوار میں اضافے کے علاوہ کسان کی بہتری کے بھی روشن امکانات ہیں۔ بلاشبہ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس اہم شعبے کو اکثر نظرانداز کیا گیا جس کی وجہ سے آج وطن عزیز کو بہت سی ایسی زرعی اجناس جو پاکستان میں وافر مقدار میں پیدا ہوتی تھی لیکن افسوس کہ ایک زرعی ملک کو اب یہ اشیاء ہمیں دوسرے ملکوں سے درآمد کرنا پڑتی ہیں جس پر کثیر زر مبادلہ بھی خرچ ہوتا ہے اور یہ زرعی اجناس صارفین کو مہنگے داموں حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی تقریبا 80فیصد آبادی کا زریعہ معاش کاشتکاری ہے اور آبادی کا بڑا حصہ دیہی آبادی پر ہی مشتمل ہے لیکن بد قسمتی سے ماضی میں حکومتوں نے زراعت اور کسان کی ترقی کو بطور ایک نعرے کے لئے اور عملی اقدامات کا فقدان ہی نظر آیا جو مجموعی طور پر اس اہم شعبے کے زوال کا باعث بنی۔ اللہ رب العزت نے وطن عزیزپاکستان کوچار موسموں اور پانی کے وسیع ذخائر سے نواز رکھا ہے ہماری زمین زرخیز ہے لیکن اس شعبے سے حکومتوں اور متعلقہ اداروں کی طرف سے غیر سنجیدہ سلوک اور کسان کی خوشحالی کے حوالے سے غفلت کے باعث وہ نتائج حاصل نہ ہوسکے جو ضروری تھے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود کہ کسان کی خوشحالی اور بہتری کی طرف عدم توجہی اور غیر سنجیدہ روش ہماری زراعت کی تنزلی کا باعث بنی۔ بلاشبہ ماضی میں حکومتوں کی طرف سے اکثر زراعت اور کاشتکار کی ترقی کے حوالے سے اعلانات سامنے آئے لیکن عمل درآمد نہ ہونے کے باعث زراعت کا شعبہ زوال پزیر ہی ہوا۔ ہماری رائے میں پنجاب میں مریم نواز حکومت کی طرف سے نواز شریف کسان کارڈ کا اجراء اور اس کے تحت آسان شرائط پر چھوٹے کاشتکاروں کو قرضے کی سہولت اور دیگر مراعات دینے کا فیصلہ ایک اچھی پیشرفت قرار دی جاسکتی ہے اور اگر اس منصوبے پر عمل درآمد یقینی بنایا گیا تو یہ زراعت کی ترقی میں ایک سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایات کی روشنی میں حکومت پنجاب یگریکلچر ڈیپارٹمنٹ جب ہر فصل کی پیداوار اور ڈیمانڈ کا مکمل ڈیٹا مرتب کرئے گا تو اس سے ایک ڈیمانڈ ایند سپلائی کی ایک مکمل تصویر سامنے آئے گی اور اس کا تعین کرنا آسان ہوگا کہ اس شعبے کی مزید بہتری اور کس فصل کی پیداوار طلب کے مطابق بڑھانے کی ضرورت ہے جس سے پیداوار اور طلب میں توازن پیدا کرنے میں آسانی ہوگی،بلاشبہ ان اقدامات سے زراعت کے شعبہ پرمثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اسی طرح کاٹن، گندم اور چاول کی فصل پر ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کیلئے سٹیٹ آف دی آرٹ سنٹر آف ایکسیلنس بنانے کی منظوری اور سنٹر آف ایکسیلنس کے انتظامی امور بورڈ کے ذریعے کنٹرول کرنے اور ریسرچ سنٹر کو ریجنل یونیورسٹیز سے لنک کرنے کے حوالے سے فیصلے قابل ستائش اور زراعت کی ترقی کے لئے اہمیت کے حامل اور اچھی پیشرفت ہیں۔ چین کے تعاون سے ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد میں 2 ارب روپے کی لاگت سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر بنانے کا فیصلہ بھی ملک میں زراعت کی ترقی اور زرعی پیداوار میں اضافے کے حوالے سے مستقبل میں اچھے نتائج کا حامل ہوگا۔زراعت کے شعبے میں چین سے تعاون کا حصول ہماری زرعی ترقی کے لیے بلاشبہ ایک اچھی علامت ہے کیونکہ چین نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنی زرعی پیداوار میں کئی گناہ اضافہ کیا ہے اور چین کی زرعی اجناس دنیا کے ہر ملک میں اور ہر موسم میں دستیاب رہتی ہیں۔ لہذ ضرورت اس امر کی ہے کہ چین جیسے دوست ملک کی زراعت اور صنعت میں تیز ترین ترقی کے حوالے تعاون یقینی بنایا جائے بلاشبہ چین کے تعاون سے ہماری زراعت ترقی اور بہتری کی طرف گامزن ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں