شام 0

اسرائیل کا دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کسی ایک ملک شام یا ایران پر حملہ نہیں بلکہ پوری اسلامی امت پر حملہ ہے، جو اسلامی ملکوں کی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ اور باعث تشویش ہونا چایئے

اسرائیل کا دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کسی ایک ملک شام یا ایران پر حملہ نہیں بلکہ پوری اسلامی امت پر حملہ ہے، جو اسلامی ملکوں کی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ اور باعث تشویش ہونا چایئے

پاکستان نے شام کے شہر دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ یہ حملہ شام کی خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی ہے اور اس کے استحکام اور سلامتی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے، 1961 کے سفارتی تعلقات کے ویانا کنونشن کے تحت سفارت کاروں یا سفارتی سہولیات کے خلاف حملے بھی غیر قانونی ہیں۔ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا تھا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو خطے میں اس کی مہم جوئی اور پڑوسی ممالک پر حملہ کرنے اور غیر ملکی سفارتی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی غیر قانونی کارروائیوں سے روکے۔یاد رہے کہ گزشتہ روز اسرائیل نے شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارتخانے کے قونصلر سیکشن پر فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں متعدد سفارتکاروں سمیت 8 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔اسرائیلی فضائی حملے میں ایرانی قونصل خانے اور قریبی عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا، مرنے والوں میں ایرانی پاسداران انقلاب کے القدس بریگیڈز کے سینئر کمانڈر رضا زاہدی بھی شامل ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ اسرائیلی افواج کا غیر ذمہ دارانہ اقدام پہلے سے ہی عدم استحکام کا شکار خطے میں ایک بڑا اضافہ ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہاکہ اسرائیل کا حملہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے بھی خلاف ہے۔ ہماری رائے میں یہ صورتحال کسی طور بھی در گزر کرنے والی نہیں بلکہ یہ تمام اسلامی ملکوں کے لیے کھلا پیغام ہے کہ اسرائیل اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے کسی بھی ملک کی سرحدی تکریم کی پرواہ کیے بغیر اپنی کاروائی کرسکتا ہے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں۔بلاشبہ یہ بات تمام اسلامی ملکوں کے لیے تشویش کا باعث ہونی چایئے کہ اسرائیل کی جارحیت اب فلسطین سے نکل کر دوسرے اسلامی ملکوں کے دارالحکومتوں تک پہنچ گئی ہے۔ ہماری رائے میں یہ صرف ایران کے قونصل خانے پر حملہ نہیں بلکہ یہ ایران اور شام دونوں ملکوں پر حملہ ہے۔ بلاشبہ شام کا دارالحکومت دمشق اور اس میں ایرانی قانصل خانہ اگر اسرائیل کی دہشت گردی کا نشانہ بن سکتا ہے تو پھر اسرائیل کی دسترس کسی بھی عرب یا اسلامی ملک کے دارالحکومت یا کسی بھی شہر تک آسانی سے ہوسکتی ہے اور اسرائیل اپنے ہدف کو با آسانی نشانہ بنا سکتا ہے۔ ہماری رائے میں یہ صورتحال بلاشبہ تمام عالم اسلام کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چایئے اور اس کے تدارک اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو روکنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اس وقت انتہائی ضروری ہے۔ بلاشبہ اس حوالے سے ایران جوابی کاروائی کا حق رکھتا ہے۔ جہاں تک اسرائیل کی جارحیت کا تعلق ہے یہ شہ اسرائیل کوبلاشبہ امریکہ کی آشیرباد کے باعث ہی مل رہی ہے اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل خطے میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے کمر بستہ ہوچکا ہے، کیونکہ غزہ اور فلسطین پر جارحیت اور اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کی قرارداد کے باوجود مظلوم فلسطینی عوام پر اسرائیلی صہیونی فوج کے دہشت گردانہ حملے جاری رکھنا اورہٹ دھرمی اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل کو طاغوتی قوتوں کی پوری حمایت اور آشیرباد حاصل ہے۔ ہماری رائے میں سعودی عرب، کویت، یو اے ای اور دیگر اہم عرب ملکوں کوہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنی روش کو تبدیل کرنا ہوگا اور اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت اور دمشق میں ایرانی قونصل خانے پرحملے کا سنجیدہ نوٹس لینا ہوگا۔ ہماری رائے میں یہ اسرائیل کی طرف سے ٹیسٹ کیس ہے کیونکہ اسرائیل اس بات سے بخوبی آگا ہ ہے کہ اسلامی ملکوں کی قیادت اپنے مفادات کی غلام ہے اور انہیں صرف اپنی ریاست اور حق حکمرانی سے سروکار ہے امت اور امت کے مسائل سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی جارحیت اور شدت پسندی میں تیزی لائی ہے اور وہ اب اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لیکن یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ اسلامی امت کی قیادت خواب خرگوش میں سوئی ہوئی ہے اور غفلت کا ارتکاب کررہی ہے اور اگراب بھی اسلامی ملکوں اور اس کی قیا دت نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر اسرائیل کے مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے قدم روکنا کسی بھی عرب ملک کے بس میں نہیں رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں