پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس 0

ہزاروں روپے کی بجلی، گیس اور ٹیکس چوری کو روکنا حکومت اور اداروں کی ذمہ داری ہے، ملک کو کرپٹ مافیا سے نجات دلاکر ہی معیشت بحرانی کیفیت سے نکل سکتی ہے

ہزاروں روپے کی بجلی، گیس اور ٹیکس چوری کو روکنا حکومت اور اداروں کی ذمہ داری ہے، ملک کو کرپٹ مافیا سے نجات دلاکر ہی معیشت بحرانی کیفیت سے نکل سکتی ہے

گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام چل رہا ہے، اہداف بھی پورے کر رہے ہیں، عوام کو ریلیف دینے میں ایک ڈیڑھ سال لگے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے ذرائع ہمارے پاس ہیں، 27 سو ارب کے ٹیکسز کے کیسز زیر التوا ہیں، ٹیکس، بجلی، گیس میں ہزاروں ارب کی چوری ہو رہی ہے، یہ چیزیں درست کریں گے تو عوام کو ریلیف ملے گا۔وفاقی وزیر دفاع کامزید کہنا تھاکہ آئندہ چھ ماہ میں ہمارے اقدامات سے عوام کو ریلیف ملے گا۔ امریکہ کی طرف سے ایران سے گیس لینے کی پابندی پر پات کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ امریکہ ایران سے گیس نہ لینے کا متبادل بتائے، ہم عالمی مارکیٹ سے مہنگی ایل پی جی خریدتے ہیں، اگر کوئی ہمسایہ اچھے نرخ پر گیس دیتا ہے تو ہمارا حق ہے، امریکہ کو ہماری معاشی صورتحال سمجھنا ہوگی۔ہماری رائے میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے بلکل درست کہا ہے کہ وطن عزیز کے پاس عوام کو ریلیف دینے کے ذرائع ہیں لیکن کرپشن اور ٹیکس، بجلی اور گیس کی ہزاروں ارب روپے کی چوری ہورہی ہے اور یہ کہ 27 سو ارب روپے کے ٹیکسز کے کیسز زیر التوا ہیں۔ بلاشبہ شبہ خواجہ آصف کا یہ کہنا کہ ہزاروں ارب روپے کی بجلی اور گیس چوری ہورہی ہے اس طرح ٹیکس نظام میں کرپشن کے باعث قومی خزانے میں ٹیکس کی رقم آنے کی بجائے کرپٹ اہل کاروں اور افسران کی جیبوں میں جاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کرپشن اور نظام کو عوام نے نہیں بلکہ حکومت اور حکومتی اداروں نے ہی ٹھیک کرنا ہے لہذاجب تک ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ اس نظام کو چمٹی ہوئی جھونکوں سے نجات نہیں دلائی جائے گی اور کرپشن کے راستے بند کرنے اور ٹیکس نیٹ میں معقول اضافے کے لئے عملی اور موثر اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گیں بہتری کے امکانات ظاہر نہیں ہونگے۔ بلاشبہ اس سارے نظام کو ایک مافیا نے اپنی مضبوط گرفت میں جکڑا ہوا ہے اس مافیا کا تسلط اور گرفت توڑنے کے لئے حکومت اور متعلقہ اداروں کو موثر کاروائی یقینی بنانی ہوگی۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آیا 27سو ارب روپے کے ٹیکسز کیسز کیوں زیر التواء ہیں آخر ان کو یکسو کرنے میں کیا امر مانع ہے اور کیا اس طاقتور مافیا نے پورے معاشی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔آخر اس سارے معاملے میں عوام کا کیا قصور ہے کہ چند ہزار افراد نے پورے ملک کے وسائل کوکنٹرول میں کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے 25کروڑ عوام مشکل حالات سے دوچار ہے۔ ہماری رائے میں حکومت کو معاشی نظام میں بہتری لانے اور عوام کو فوری ریلیف دینے کے لئے مالیاتی نظام میں تبدیلیاں لانا ہونگی۔ ہماری رائے میں جب تک ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور خاص طور پر ٹیکس وصولی میں بہتری لانے کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گیں مثبت نتائج کا حصول ممکن نہ ہوگا۔ وزارت خزانہ اور ایف بی آر زیر التوء کیسوں کو یکسو کرانے کے لیے فوری اقدامات کرے تو قومی خزانے میں خطیر رقم جمع ہوسکے گی۔ سب سے بڑھ کر یہ جیسا کہ خواجہ آصف نے کہاہے کہ ہزاروں روپے کی بجلی اور گیس چوری ہورہی ہے اور اسی طرح 27سو ارب کے ٹیکسز کیسز کا زیر التواء رہنا کوئی اچھی اور مثبت علامت نہیں آخر ہمارے ادارے کیا کام کر رہے ہیں اگر وہ ملک کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کرتے تو پھر ایسے ااداروں کی ضرورت کیوں کرباقی رہتی ہے۔عوام کا آخر قصور کیا ہے اس وقت وطن عزیز میں مہنگائی کا جن تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور عوام ریلیف لے لیے بے قرا ر ہے، لیکن حکومت کے پاس وسائل کی کمی آڑے آرہی ہے مگر اس کے برعکس اگر حکومت اپنی رٹ کو قائم کرتے ہوئے کرپشن کے راستے بند کرئے ٹیکس کے زیر التواء کیسوں کویکسو کرائے اسی طرح بجلی، گیس اور ٹیکس چوری کے راستے بند کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک اپنے وسائل سے ہی معاشی بحران سے نجات حاصل نہ کر پائے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجلی، گیس اور ٹیکس چوری کو کوئی فرد واحد تو نہیں روک سکتا یہ تو حکومت اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ خالی یہ کہ دینے سے کہ ہزاروں ارب روپے کی چوری اور کرپشن ہورہی ہے حکومت اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی بلکہ یہ حکومت اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرپشن، گیس، بجلی اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے نہ صرف اقدامات کرئے بلکہ اس چوری کو روکنے کے لیے ان افراد اور سرکاری سہولتکاروں کو بھی نشان عبرت بنانے کے لئے فوری کاروائی عمل میں لائے تاکہ ملک معاشی بحران سے نکل سکے۔ یہ بلا شبہ ہمارے ملک کی بقاء اور سالمیت کا معاملہ ہے کہ ملک کو کرپٹ عناصر سے پاک کرکے اس کی معیشت کو بہتری کی طرف لایا جاسکے اور عوام کو ان کا حق دیا جاسکے۔ جہاں تک آئی ایم ایف کے قرضوں کا معاملہ ہے یہ تو ملک کومزید بحران سے دوچار کرنے کا پروگرام ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے جتنے قرض بھی لیے گے ان سے معیشت بہتر ہونے کی بجائے مزید ابتر ہوتی گئی اور ملک قرضوں اور سود کی دلدل میں جکڑا گیا۔ ہماری رائے میں ضروری ہوگا کہ حکومت عوام کوریلیف دینے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے تاکہ مہنگائی کی چکی میں پسی عوام کو کچھ تو سہارا ملے جس کی وہ حکومت سے توقع کر رہے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت بجلی،گیس اور ٹیکس چوروں کو نشان عبرت بنائے گی تاکہ کروڑوں عوام تختہ مشق نہ بنے رہیں اور ان کی زندگی میں بھی کوئی بہتری آئے اور وہ سکھ کا سانس لے سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں