بجلی 0

بجلی کی قیمت میں 4 روپے 92 پیسے فی یونٹ اضافہ ملک میں مہنگائی کے ایک نئے طوفان کا باعث بنے گا، حکومت کو آئے دن یوٹیلیٹی بلوں اورپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کارحجان ختم کرنا ہوگا

بجلی کی قیمت میں 4 روپے 92 پیسے فی یونٹ اضافہ ملک میں مہنگائی کے ایک نئے طوفان کا باعث بنے گا، حکومت کو آئے دن یوٹیلیٹی بلوں اورپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کارحجان ختم کرنا ہوگا

بلاشبہ بجلی صارفین کے لیے بالخصوص اور عام پاکستانیوں کے لیے بلعموم یہ خبر بجلی بم سے کم نہیں کہ نیپرا نے مہنگائی کے ستائے عوام کو ایک اور جھٹکا دے دیا اور حکومت نے بجلی مزید 4 روپے 92 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی۔اس حوالے سے نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی نیپراکی جانب سے جاری نو ٹیفکیشن جاری کردیا گیاجس کے کے مطابق بجلی 4 روپے 92 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ فروری کی فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق صارفین سے اضافی وصولیاں اپریل کے بلوں میں کی جائیں گیں، بجلی کی قیمت میں اضافے کا اطلاق لائف لائن اور کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہوگا۔ ہماری رائے میں بجلی کا یہ نیا جھٹکا عوام کو عید سعید کے پر مسرت موقع پر عیدی کی صورت میں دیا گیا ہے۔ بلاشبہ مہنگائی کی چکی میں پستی عوام جو پہلے ہی یوٹیلیٹی بلوں میں آئے دن ہوشرباء اضافے کے باعث مالی مشکلات کا شکار ہیں اس پر بجلی کی قیمت میں یہ نیا اضافہ عوام کی مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ ہماری رائے میں اس نئے اضافے سے بجلی بل جو پہلے ہی عوام کی سکت اور برداشت سے باہر ہیں اب ان بلوں میں مزید اضافہ بجلی صارفین کے ہوش اڑانے کا سبب بنے گا اور مہنگائی کا ایک نیا نہ رکنے والا سلسلہ مزید دراز ہوجائے گا۔یاد رہے پہلے ہی عید کی آمد سے پہلے ہی سبزیوں، پھلوں اور دیگر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو جیسے پر لگ گئے ہوں۔ اس وقت چکن، بیف اور مٹن کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں اور ان چیزوں کی خریداری ایک عام شہری کی طاقت سے باہر ہے۔ بلاشبہ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ملک میں مختلف مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث ہوتا ہے جس سے مہنگائی کا ایک نیا سلسلہ عوام کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔ فیکٹری مالکان اپنی پیداواری لاگت اور ٹیکسوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال کر اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں من پسند اضافہ کرتے ہیں، اس طرح عوام پر بوجھ در بوجھ یعنی ڈبل بوجھ ایک لازمی امر ہے۔ ایک طرف حکومت کی طرف سے یوٹیلیٹی بلوں اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ ڈایئریکٹ عوام پر پڑتا ہے دوسری طرف ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ سے عوام پر ایک اور بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ اس سارے سلسلے میں تختہ مشق عوام ہی بنتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے حکومت کے پاس عالمی مالیاتی ادارے کو ادائیگی کرنے کے لیے 25کڑور عوام کو تختہ مشق بنانے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل پروگرام نہیں ہے۔ ہماری رائے میں مہنگائی کا جن جس طرح پاکستان میں سرایت کر چکا ہے اور معیشت کی بحرانی کیفیت ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تو ایسے میں وطن عزیز میں غربت اور بے روزگاری کا گراف مزید اوپر کی طرف جائے گا جو کسی صورت ملکی ترقی اور معیشت کے لیے ایک اچھی علامت نہیں۔بلاشبہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کی دلدل میں جکڑ لیا ہے اور اب حکومت کے پاس بظاہر یوٹیلیٹی بلوں میں اضافے کے علاوہ کوئی اور متبادل راستہ نہیں لہذا آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا مقصد ہی اپنی قسط کی وصولی کویقینی بنانے کے علاوہ ملک کی معیشت کو بحران سے دوچار کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج تک آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان نے جتنے بھی پروگرام کئے پاکستان کی معیشت پر کونسے مثبت اثرات مرتب ہوئے، البتہ
پاکستان عالمی مالیاتی ادارے کی گرفت سے نہ نکل سکا۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہآخر کب تک بجلی، گیس بلوں اور پیٹرولیم مصنوعات کی قینتوں میں اضافے کا رحجان جاری رہے گا، حکومت کو شہریوں کی قوت خرید اور معاشی صورتحال کا مکمل ادراک ضرور ہوگا تو ایسے میں حکومت کس طرح عوام پرآئے دن یوٹیلیٹی بلوں میں اضافے کی صورت میں جھٹکے دیتی رہے گی۔ اگر عام غریب شہریوں کو اس اضافے کی وجہ سے بھاری بھرکم بلات موصول ہونگے اور وہ بل ادائیگی کی سکت نہ رکھتے ہوں تو حکومت یہ بلات کس سے وصول کرپائے گی اور کیا ڈسکنیکشن سے حکومت اپنے وصولی کے اہداف پورے کر پائے گی۔ ہماری رائے میں حکومت کو یوٹیلیٹی بلوں اورپیٹرولیم مصنوعات میں آئے دن اضافے کے رحجان کوترک کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی اس حوالے سے شرائط اور مداخلت کو نظر انداز کرتے ہوئے عوام کی بہتری کے لئے حکومتی زرائع آمدنی میں اضافہ کے لیے متبادل زرائع اختیار کرنا ہونگے۔ایک طرف عوام حکومت سے ریلیف ملنے کے منتظرہیں جبکہ دوسری طرف حکومت کی طرف سے بجلی کی قیمت میں حالیہ اضافہ، عوام کے لیے ایک بری خبر کے ساتھ ان کی مشکلات اور مسائل میں مزید خرابی کا باعث ہے۔امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت عوام کی معاشی خستہ حالی کے تناظر میں بجلی کی قیمتوں میں یہ حالیہ اضافہ واپس لے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں