ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی 0

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان دونوں برادر اسلامی ملکوں کے تعلقات کی مضبوطی میں سنگ میل ثابت ہوگا

ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی جس میں دہشت گردی کے خلاف دونوں ممالک کی مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا گیا، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم بڑھانے کے لیے آٹھ شعبہ جات میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کردیے گئے۔ایران کے صدر ابراہیم رئیسی 3 روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے، جہاں نور خان ائربیس پر وفاقی وزیر ہاسنگ اینڈ ورکس ریاض حسین پیرزادہ نے ان کا استقبال کیا۔ بعد ازاں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی وزیرِاعظم ہاس پہنچے تو وزیرِاعظم شہباز شریف نے مہمان کا استقبال کیا۔اسلام آباد کی ایک شاہراہ کو ایران ایونیو کا نام دے دیا گیا، دونوں شخصیات نے ایران ایونیو شاہراہ کا افتتاح بھی کیا۔ بعد ازاں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ و ن آن ون ملاقات ہوئی، جس میں دونوں رہنماں کے درمیان نیک خواہشات کا تبادلہ ہوا۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عام انتخابات کے بعد آپ پہلے سربراہِ مملکت ہیں جو پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ مجھ سمیت پوری پاکستانی قوم آپ کے اس دورے کا خیر مقدم کرتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ غزہ کے معاملے پر ایران نے مضبوط موقف اپنایا جو کہ قابل تعریف ہے، 35ہزار مسلمان شہید کردیے گئے اور اقوام عالم اور عالم اسلام خاموش ہے، ہمیں مل کر ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی، پاکستان فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح کشمیر کی زمین بھی بھارتی کی جانب سے ان کے لہو سے سرخ کردی گئی ہے پاکستان کشمیر میں بھی ظلم کو بند کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، ایران نے کشمیر کے حق میں آواز بلند کی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی سرحدوں پر کاروبار کو وسعت دینی ہوگی، ہمیں موقع ملاہے کہ اپنی دوستی کو مزید مضبوط کریں، ایران نے آزادی کے بعد سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سرزمین ہمارے لیے قابل احترام ہے، فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ ضروری ہے، فلسطین میں اسرائیلی ظلم کے خلاف پاکستانی عوام کا ردعمل قابل تحسین ہے، غزہ کے عوام کی حمایت پر پاکستان کے عوام کو سلام پیش کرتا ہوں۔ایرانی صدر نے کہا کہ فلسطین کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کررہی، ایک دن فلسطین کے لوگوں کو ان کا حق مل جائے گا۔قبل ازیں پاکستان کے تین روزہ دورے پر روانگی سے قبل تہران میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کا کہنا تھا کہ پاکستان سے باہمی تجارت کا حجم 10 ارب ڈالرز تک لے جائیں گے، پاکستان ایرانی مارکیٹ سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ہے، پاکستان اور ایران کے درمیان عوامی اور حکومتی سطح پر تاریخی تعلقات قائم ہیں، ماضی سے آج تک پاکستان اور ایران میں بہت اچھے سیاسی، اقتصادی اور مذہبی تعلقات ہیں۔ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ مختلف عالمی مسائل پر ایران اور پاکستان مشترکہ موقف رکھتے ہیں، انسانی حقوق، فلسطین، انسدادِ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان اور ایران کا مشترکہ موقف ہے۔ ہماری رائے میں ایران کے صدر ابراہیم ریئسی کا دورہ پاکستان بلاشبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہی نہیں بلکہ آنے وانے وقت میں یہ دورہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی مضبوطی کے حوالے سے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ ایران پاکستان کا برادر اسلامی ہمسایہ ملک ہے اور دونوں ملکوں کے درمین تعلقات تاریخی نوعیت کے ہیں۔ ایران کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اقوام متحدہ میں ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو بطور ایک آزاد ملک تسلیم کیا تھا اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برادر ہمسایہ اسلامی ملک افغانستان نے اس حوالے سے پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ بلاشبہ موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں پاکستان کو اپنے دوست اور ہمدرد ملکوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور مضبوطی لانے کے لیے موثر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ بلاشبہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم بڑھانے سے سے خام تیل، گیس، اشیاء خوردونوش اور دیگر اشیاء پاکستان کو سستے داموں میسر آسکتی ہیں اور پاکستان کو اپنے حالات کے مطابق ایران سے کاروباری حجم میں اضافہ کرنے کے لیے کاروباری روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہماری رائے میں پاکستان کو اس حوالے سے امریکہ کے ساتھ مسئلہ پوری قوت سے کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ ہمیں اپنے مفادات اور علاقائی سالمیت کو مد نظر رکھ کر اپنے دوست اور ہمسایہ ملکوں سے تعلقات میں بہتری لانا ہوگی۔ اگر بھارت ایران سے خام تیل، گیس اور دیگر ضروری اشیاء سستے داموں حاصل کر سکتا ہے تو پھر امریکہ کو اس حوالے سے پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی میں نرمی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے روس اور دیگر وسطی ایشائی ریاستوں سے بھی پاکستان کوکاروباری حجم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت وطن عزیز میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے عوام انتہائی برے حالات سے دوچار ہیں، ایسے میں عوام کو مہنگائی، غربت اور بے روزگاری سے نجات دلانے ایران،روس، چین اور وسطی ایشائی ریاستوں سے جس قدر ممکن ہو مال کے بدلے مال اور ایسی اشیا جو ان ملکوں سے سستے داموں حاصل کی جاسکتی ہیں اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے تاکہ عوام کو حقیقی ریلیفمل سکے اور ملک کے معاشی حالات میں بہتری ممکن ہوسکے۔ ہماری رائے میں اب وقت آ گیا ہے کہ طاغوتی طا قتوں کے چنگل اور حصار سے اسلامی ملکوں کو نجات دلانے، کشمیر اور فلسطین کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے عالم اسلام کے تما م ممالک مکمل اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں، اسی صورت امت مسلمہ اپنا کھویا ہوا وقار اور مقام حاصل کر سکتی ہے۔ہماری رائے میں حکومت پاکستان کی طرف سے اسلام آباد میں الیونتھ ایوینو کا نام ایران ایونیو رکھنے کا فیصلہ بلاشبہ ایک مثبت عمل اور ایران جیسے برادر اسلامی ملک کے لیے پاکستان کی طرف سے ایک خوبصورت تحفہ سے کم نہیں کیونکہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری اور مضبوطی آئے گی۔ہماری رائے میں ایران اپنے مفادات کے لیے کسی بھی ملک سے اپنے تعلقات مضبوط کر سکتا ہے لیکن بھارت کے حوالے ایران کو اپنے تعلقات کی نوعیت میں کچھ لچک پیدا کرنا ہوگی، خاص طور پر چاہ بہار بندر گاہ کی بھارت کو حوالگی کے حوالے سے ایران کو اپنے فیصلے میں نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ بھارت امریکہ کی آشیرباد سے پاکستان کے لیے سی پیک اور گوادر پورٹ جیسے اہم منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہی اس شیطانی کھیل پر عمل کر رہا ہے۔ ہماری رائے میں ایران کو بطور ایک اسلامی برادر ملک،بھارت جیسے مذہبی جنونی ملک کی شدت پسندی، جارحیت اور اسلام کے خلاف سازشوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔بھارت جو فلسطین کے حوالے سے اسرائیل اور امریکہ کا اتحادی ہے اور اس خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنے ولا ملک ہے جبکہ ایران گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے امریکہ کے زیر عتاب ہے۔ جبکہ بھارت کی شیطانی چالوں کے باعث یہ ملک قبل ازیں روس اور بعد ازاں امریکہ سے مفادات حاصل کرتا چلا آیا ہے۔بلاشبہ ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت اپنے مفادات پر مبنی ہوتی ہے اور ایران بھی اپنے مفادات کے لیے اپنی آزاد خارجہ پالیسی کا حق رکھتا ہے لیکن زمینی حقائق کی روشنی میں ایران کو چاہ بہار بندر گاہ کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ بلا شبہ ایرابی صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا نقطہ آغاز ثابت ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں