سپریم کورٹ 0

سپریم کورٹ کا ایک تین رکنی بینچ دوسرے تین رکنی بینچ کی جانب سے صوابدیدی اختیار کے استعمال میں مداخلت نہیں کرسکتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سپریم کورٹ کا ایک تین رکنی بینچ دوسرے تین رکنی بینچ کی جانب سے صوابدیدی اختیار کے استعمال میں مداخلت نہیں کرسکتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اگر درخواست انتقال کرگیا ہے تواس کے لواحقین عدالت کو بتائیں گے کہ درخواست گزار فوت ہوگیا ہے اورانہیں کیس میں فریق بنایا جائے۔درخواست گزار کے فوت ہونے کا فرشتوں کو تونہیں بنانا تھا بلکہ عدالت کو بتانا تھا۔جس شخص سے زمین کا قبضہ لینے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کو پارٹی توبنائیں۔سپریم کورٹ کا ایک تین رکنی بینچ دوسرے تین رکنی بینچ کی جانب سے صوابدیدی اختیار کے استعمال میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ جبکہ عدالت نے سیالکوٹ میں درگاداس اور مسمات راج رانی کی جانب سے چھوڑی گئی5کنال 14مرلے زمین کی ملکیت کے حوالہ سے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر درخواستیں منظور کرتے ہوئے مدعا علیحان کا دعویٰ خارج کردیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے سیالکوٹ میں 5کنال14مرلے زمین کی ملکیت کے تنازعہ پر حکومت پنجاب کی جانب سے کلیکٹر سیالکوٹ کے توسط سے ملک فیض حسین کے خلاف اورمرحومین ملک فیض حسین، فیروزدین اور مسمات اللہ رکھی کے لواحقین کی جانب سے حکومت پنجاب کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ حکومت پنجاب کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بیرسٹر محمد ممتاز علی جبکہ مدعا علیحان کی جانب سے محمد منیر پراچہ ، سید رفاقت حسین شاہ اوردیگر پیش ہوئے۔ منیر احمد پراچہ کاکہنا تھا کہ 30مئی1980کو دعویٰ دائر کیا گیا تھا، 20ستمبر1985کو ملک فیض حسین فوت ہو گیا۔ چیف جسٹس نے منیر پراچہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ توہمیشہ بڑاتیارہوکرآتے ہیں، آج کیاہو گیا، درخواست گزار کے فوت ہونے کا فرشتوں کو تونہیں بنانا تھا بلکہ عدالت کو بتانا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگردرخواست انتقال کرگیا ہے تواس کے لواحقین عدالت کو بتائیں گے کہ درخواست گزار فوت ہوگیا ہے اورانہیں فریق بنایا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے قانونی طریقہ کار کے مطابق چلنا ہے، ہم متضاد گروئونڈ نہیں لے سکتے،100مرتبہ ایک ہی بات کریں گے تواس سے کیا فرق پڑے گا، میرٹ پرچلائیں،ختم کریں کیس،سپریم کورٹ کا ایک تین رکنی بینچ دوسرے تین رکنی بینچ کی جانب سے صوابدیدی اختیار کے استعمال میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس کافیروز دین کے لواحقین کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مبارک آپ نے آدھے گھنٹے میں فائل کھول لی۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ درگاداس 1951میں فوت ہوا اس کے بعد اس کی بیوی مسمات راج رانی 1965میں بھارت چلی گئی۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے وہ بھارت نہ گئی ہو۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھاکہ پانچ کنال 14مرلے میں سے 2کنال پرمدعا علیہ قابض تھے، 1961میں راج رانی نے انہیں جگہ خالی کرنے کانوٹس بھی دیا تھا، درگاداس اورراج رانی کے بچے نہیں تھے۔ بیرسٹر ممتاز علی کا کہنا تھا کہ ہماری اپیلیں 2015میں سپریم کورٹ نے منظورکر لی تھیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ جگہ کلیکٹر کسٹم کو کرائے پر دی گئی تھی اس لئے آپ بھی ملکیت کادعویٰ نہیں کرسکتے،سرکاراس وقت دعویٰ کرے گی جب زمین کی ملکیت ثابت نہ ہو۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ 5کنال14مرلے جگہ سیالکوٹ میں ڈی سی آفس کے سامنے واقع ہے۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت پنجاب نے 3کنال کچھ مرلے کسٹم ایکسائز والوں کو بیچ دی جبکہ دوکنال اورچند مرلے کاتنازعہ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس شخص سے زمین کا قبضہ لینے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کو پارٹی توبنائیں۔ چیف جسٹس کا منیر پراچہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کا کیس تویہ ہونا چاہیئے کہ میں راج رانی کاکرایہ دار ہوں۔ منیر پراچہ کاکہنا تھا کہ کلیکٹر کااختیار نہیں تھا کہ مجھے نوٹس جاری کرے۔ چیف جسٹس کا مدعا علیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال دیئے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھاکہ زمین پر قابض شخص ملکیت کادعویٰ نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس کا مسمات اللہ رکھی کے وکیل سید رفاقت حسین شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نہ ٹرائل کورٹ، نہ ہائی اورنہ سپریم کورٹ میں مدعی ہوسکتے ہیں، جس سے زمین کاقبضہ لینے دعویٰ کررہے ہیں اس کو پارٹی توبنائیں۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ ملک فیض حسین، فیروز دین اور مسمات اللہ رکھی نے کلیٹر سیالکوٹ کے خلاف 1981میںدعویٰ کیا کہ وہ مخصوص زمین کے مالک بن گئے ہیں جو کہ مسماعت راج رانی کی ملکیت تھی۔ سپریم کورٹ نے 11مارچ2015کو اپنے فیصلے قراردیا کہ درخواست گزاروں نے راج رانی کو فریق نہیں بنایااس لئے ان کی درخواستیں خارج کی جاتی ہیں۔عدالت نے قراردیا کہ مدعا علیحان کے وکیل مطمئن نہیں کرسکے اس لئے درخواستیں خارج کی جاتی ہیں۔ عدالت نے قراردیا کہ سپریم کورٹ کا11مارچ2015کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے۔ چیف جسٹس کا منیر پراچہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ جاکرالگ دعویٰ دائر کرسکتے ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کسٹم ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھ اکہ اگران کاکوئی راستے کاتنازعہ ہے توہ بھی جاکرالگ دعویٰ دائر کرسکتے ہیں۔ عدالت نے کسٹم ایکسائز کی درخواست زورنہ دینے کی بنیاد پر خارج کردی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں