وزیراعظم شہباز شریف 0

حکومت کا ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان بلاشبہ ایک مثبت عمل ہے،موثر کوششوں سے تعلیم کا معیار بلند کرنے اور سکول سے باہر تعلیم سے محروم طلباء کی تعداد میں کمی ممکن بنائی جاسکتی ہے

حکومت کا ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان بلاشبہ ایک مثبت عمل ہے،موثر کوششوں سے تعلیم کا معیار بلند کرنے اور سکول سے باہر تعلیم سے محروم طلباء کی تعداد میں کمی ممکن بنائی جاسکتی ہے

بدھ کو شعبہ تعلیم سے متعلق قومی کانفرنس میں وزیر اعظم شہباز شریف کا ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی،پاکستان میں 2 کروڑ 60 لاکھ بچوں کا اسکول نہ جانا بڑا چیلنج ہے، پاکستانی قوم عزم و حوصلہ سے کسی بھی چیلنج پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ملک میں تعلیم کے شعبہ کی خود نگرانی کروں گا، ہم یکسو ہو کر چلیں تو پاکستان ہر شعبے میں اپنا نام پیدا کرسکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم کانفرنس ہے۔ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، برطانیہ کا پاکستان میں تعلیم، فنی و پیشہ وارانہ تعلیم کے فروغ کیلئے تعاون قابل ستائش ہے، بابائے قوم کا بھی فرمان ہے کہ تعلیم ہمارے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے، کسی بھی قوم کی ترقی تعلیم سے جڑی ہوئی ہے۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرتعلیم و پیشہ وارانہ تربیت ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ تعلیم کا شعبہ فور ی توجہ کا متقاضی ہے، 2کروڑ 60 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں، اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو سکول سے باہر ہونا تشویش کی بات ہے۔پاکستان میں برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میریٹ کا اس موقع پر کہنا تھاکہ پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کو تعلیم کی فراہمی ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خوشی ہے کہ وزیراعظم محمد شبہازشریف کی قیادت میں تعلیم کے شعبے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ سکول سے باہر بچوں کی بڑی تعداد باعث تشویش ہے، پاکستان میں دیگر ممالک کی نسبت زیادہ بچے سکول سے باہر ہیں۔ دنیابھر میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ فوری اقدامات کے ذریعے سکولوں میں بچوں کے اندراج کی شرح بڑھانا ہوگی۔برطانیہ تعلیم کے شعبے کی ترقی کیلئے پاکستان کی بھرپور معاونت کریگااور تعلیم سے متعلق 2030 کے عالمی اہداف کے حصول کو یقینی بناناہو گا۔ہماری رائے میں حکومت کی طرف سے ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ ایک اچھا اور قابل ستائش عمل ہے۔بلاشبہ تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ سے ملک میں شعبہ تعلیم کی گرتی ہوئے ساکھ کو بحال کرنے اور خاص طور پر سکول سے باہر بچوں کی سکول تک رسائی ممکن بنانے میں مدد ملے گی، لیکن اس کے لئے ضروری ہوگا کہ تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کے ساتھ شعبہ تعلیم میں تفاوت کو ختم کرنے اور تمام بچوں کے لئے یکساں تعلیمی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے بھی اقدامات اٹھائے جائیں تو بہتر نتائج کا حصول ممکن ہی نہیں بلکہ یقینی ہوگا۔یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں علم کو بیچا جاتا ہے اس وقت شعبہ تعلیم پرائیویٹ سیکٹر میں ایک منفعت بخش کاروبار بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے تو غلط نہ ہوگا یہی وجہ ہے اکثر ایسے افراد جن کا اس شعبہ سے دور دور کا تعلق بھی نہیں لیکن ان کے پاس اس انڈسٹری میں سرمایا کاری کرنے کے لئے مال و دولت دستیاب ہے وہ ایک مافیا کی صورت اس اہم شعبے کومنافعہ بخش کاروبار بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اچھی تعلیم کا حصول ایک متوسط خاندان کے بچے کے لئے مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو چکا ہے۔دولت مند طبقہ اپنے بچوں کو ان اعلیٰ تعلیم اداروں میں داخلہ دلانے اور بعد ازاں بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ کے حصول میں کامیاب ہوجاتے ہیں جبکہ ایک غریب خاندان کا بچہ خواہ کتنا ہی قابل ذہین اور لائق کیوں نہ ہو اس بچے کے لئے اعلیٰ درجے کے سکول کالجوں اور اسی طرح بیرون ملک اچھے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ حاصل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہوتا ہے۔تعلیم کے شعبے میں علمی کاروبار نے ملک کے قابل اور ذہین بچوں کے لئے یکساں ترقی کے مواقعوں میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ بلا شبہ ہمارے ہاں تعلیم اب ذریعہ روزگار اور پیسہ کمانے کا بہترین کاروبار بن چکا ہے اور یہ ہماری قومی بد قسمتی ہی ہے کہ اس اہم شعبے کو بھی ایک مافیا نے نہ بخشا اور آج وطن عزیز پاکستان میں غربت اور تعلیمی تفاوت کے باعث 2کروڑ 60 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ تعلیم مافیا نے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر جدید سہولتوں سے آرئستہ سکول، کالجز اور اکیڈمیاں قائم کر رکھی ہیں جو مال کمانے کی مشینیں ہیں۔ ہماری رائے میں تعلیم کے شعبے اس انقلابی اقدام لانے کا سہرا جہاں حکومت وقت اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو جاتا ہے وہاں اس ساری تگ و دو اور کوشش کے روح رواں وفاقی سیکرٹری تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت محی الدین احمد وانی ہیں جہنوں نے اس وزارت کا بطور سیکرٹری چارج سنبھالتے ہی اس مشن پر کام کی ابتداء کر دی تھی۔ تعلیم کے شعبے میں انقلابی تبدلیاں لانے کا سلسلہ سیکرٹری تعلیم نے بطور چیف سیکرٹری گلگت بلتستان سے شروع کیا تھا اور اپنی موجودہ تعیناتی کو بطور ایک چلینج کے لیتے ہوئے انہوں نے اسلام آباد کے تمام ماڈل سکولوں کو جدید سہولتوں سے مزین کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو بلا شبہ ہمارے ملک کی تاریخ میں شعبہ تعلیم میں پہلی دفعہ ممکن ہوا کہ کسی وفاقی سیکرٹری نے اس عرق ریزی، لگن اور جذبے کے ساتھ ملک کے ہونہار بچوں کی قابلیت کو پزیرائی دیتے ہوئے ان کے مستقبل کو تابناک اور روشن بنانے اور تعلیم کے شعبے میں سرکاری سکولوں میں عام اور متوسط کلاس کے بچوں کے لئے جدید تعلیمی سہولتوں کو یقینی بنانے کی ابتداء کی۔ بلاشبہ سیکرٹری وانی کے یہ اقدامات تاریخ ساز اور انتہائی اہمیت کے حامل ثابت ہونگے۔ اب جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بذات خود تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ سے اہداف کا حصول ممکن بنانے کا بیڑا اٹھایا ہے تو بلاشبہ اس کے مثبت نتائج ضرور حاصل ہونگے۔
کے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں