آزاد کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی 0

حکومت پاکستان کی مداخلت سے تما م مطالبات کی منظوری پر آزاد کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے احتجاج ختم کرنے کا اعلان ایک مثبت پیشرفت، لیکن اس احتجاج کے دوران حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی سے جو واقعات پیش آئے وہ افسوسناک ہیں

حکومت پاکستان کی مداخلت سے تما م مطالبات کی منظوری پر آزاد کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے احتجاج ختم کرنے کا اعلان ایک مثبت پیشرفت، لیکن اس احتجاج کے دوران حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی سے جو واقعات پیش آئے وہ افسوسناک ہیں

یہ بات بلاشبہ مثبت پیشرفت ہے کہ حکومت پاکستان کی مداخلت کے باعث تمام عوامی مطالبات تسلیم کر لئے گئے اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے پورے آزاد کشمیر میں جاری عوامی تحریک،پہیہ جام اور شٹر ڈاوں ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ البتہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے مظفرآباد میں رینجرز کی فارئرنگ سے شہید ہونے والے تین نوجوانوں کے سوگ میں تین دن کا سوگ منانے کا اعلان کردیا۔آزاد کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے تحت مطالبات، مہنگائی اور بجلی کی قیمت کے خلاف عوامی احتجاج کی شدت اور گزشتہ روزمظفرآباد میں رینجرز کی فائرنگ کے نا خوشگوار واقع میں تین نوجوان جانبحق ہوگئے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے جو مطالبات حکومت آزاد کشمیر کے سامنے رکھے تھے وہ بلآخر حکومت پاکستان کی مداخلت سے تمام مطالبات منظور کر لیے گئے اور اس حوالے سے نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا گیا،یاد رہے کہ آزاد کشمیر میں مہنگائی اور بجلی کی قیمت کو کم کرنے کے لئے عوامی تحریک کا آغاز ایک سال قبل شروع ہوا اور ایک غیر سیاسی پلیٹ فارم کی تشکیل دیا گیا جس میں پورے آزاد کشمیر سے غیر سیاسی لوگوں پر مشتمل ایک جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی بنائی گئی 10اضلاع سے ممبرا ن کور کمیٹی بنائی گئی جنھوں نے تحریک کا آغازکیا متعدد مرتبہ مظفرآباد سمیت تمام اضلاع میں دھرنے دیئے گے مختلف اوقات میں کور کمیٹی اور حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان بات چیت کے دور چلے جو بے نتیجہ رہے۔یاد رہے کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے آٹے میں سبسڈی،بجلی بلوں میں کمی اور بیورو کریسی اور حکمرانوں کی مراعات میں کمی جیسے مطالبات شامل تھے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے لانگ مارچ کی کال دی جس میں آزاد کشمیر کے تینوں ڈویژن شامل تھے مارچ کا آغاز 11مئی کو رکھا گیا تھا،لیکن 9مئی کو اسلام گڑھ میں ایک پولیس آفیسر گولی لگنے سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ 11مئی شام کو حکومت کی طرف سے چیف سیکرٹری کی قیادت میں ایک کمیٹی شکیل دی گئی جس نے راولاکوٹ میں شرکا مارچ کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کیے لیکن حسب روایت بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ تمام اضلاع میں شٹر ڈان اور پہیہ بھی جام رہا اور دفعہ 144کا نفاذ بھی عمل میں لایا گیا اور مظفرآباد سمیت تمام اضلاع میں گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔ یہ احتجاج مزید شدت اختیار کرتا لیکن حکومت پاکستان نے مداخلت کرتے ہوئے تمام اتحادی جماعتوں کو اسلام آباد طلب کیا اور عوامی مطالبات کو پورا کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ ہماری دانست میں اپنے مطالبات کے لئے احتجاج کرنا ایک انسانی حق ہے، اور اس حوالے سے حکومت کا بھی ایک اہم کردار ہوتا ہے اور اس سے پہلے کوئی بھی احتجاج شدت اختیار کر جائے، لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوجائے،حتی کی انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہونے کا امکان ہو تو حکومت اور انتظامیہ کو حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے جائز عوامی مطالبات کو تسلیم کرلینا چاہئے۔ لیکن جو کچھ آزاد کشمیر میں ہوا اور پیر کے روز تین نوجوان رینجرز کی فائرنگ سے لقمہ اجل بن گئے یہ صورتحال کسی صورت پیدا نہ ہوتی اگر آزاد کشمیر حکومت عوامی احتجاج کی تحریک کو ہلکا لیتے ہوئے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرتی اور درمیانی راستہ نکالتے ہوئے جائز عوامی مطالبات کے لئے ٹھوس اور موثر اقدامات اٹھاتی اور حکومت پاکستان کی مدد ان مطالبات کی منظوری کے لئے حاصل کرتی۔ لیکن شومئی قسمت ایسا نہ کیا گیا۔ بلاشبہ جو بھی صورتحال آزاد کشمیر میں اس احتجاج کی صورت میں پیدا ہوئی اسلام گڑھ میں ایک نوجوان پولیس کی شہادت اور اسی طرح مظفرآباد میں رینجرز کی فائرنگ سے تین نوجوانوں کی شہادت اور کئی افراد کے زخمی ہونے کی نوبت کبھی نہ آتی اگر حکومت آزاد کشمیر ہوش کے ناخن لیتے ہوئے عوامی مطالبات کو اہمیت دیتی اوراپنی پالیسی میں لچک کا مظاہرہ کرتی،لیکن صورتحال اس کے برعکس رہی، وزیر اعظم آزاد کشمیر اور ان کی حکومت طاقت کے استعمال کو مسائل کا حل سمجھتے رہے جس کا شاخسانہ کئی افراد کی ہلاکت اور حالات میں کشیدگی کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ صورتحال بلاشبہ حکومت آزاد کشمیر اور انتظامیہ کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ روش اور ہٹ دھرمی کے باعث پیدا ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب جب کہ اس قدر مشکل حالات،کشیدگی اور بے گناہ جانوں کے نقصان کے بعدتمام تر مطالبات تسلیم کر لئے گئے تو کیوں نہ پہلے ہی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق عوامی مطالبات کے لئے حکومت پاکستان سے مدد طلب کرتے تو جو کچھ ہوا ایسا کھبی نہ ہوتا۔حالات کا پہیہ واپس نہیں مڑ سکتا لیکن جو کچھ بھی اسی احتجاج کے دوران ہوا وہ قابل مذمت اور قابل افسوس ہے اور اگریہ کہا جائے یہ صورتحال آزاد کشمیر میں میں گزشتہ75سالہ تاریخ میں اس سے پہلے کھبی بھی دیکھنے کو نہ آئی تو غلط نہ ہوگا۔ بلاشبہ یہ صورتحال ہمارے لئے من حیث القوم ایک لمحہ فکریہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں