وزیر اعظم شہباز شریف 0

وزیر اعظم شہباز شریف کا حالیہ دورہ مظفرآباد اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کا اعادہ بلاشبہ کشمیری عوام سے محبت کا اظہار ہے

وزیر اعظم شہباز شریف کا حالیہ دورہ مظفرآباد اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کا اعادہ بلاشبہ کشمیری عوام سے محبت کا اظہار ہے

جمعرات کے روز مظفرآباد میں آزاد کشمیر کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہبازشریف کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں احتجاجی تحریک کے دوران شر پسند عناصر کی طرف سے صورتحال کو بگاڑنے اور جلاؤ گھیراؤں کی کوششیں ناکام ہو گئیں، معاملات کو بہتر طریقے سے حل کر لیاگیا، آزاد کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کرتے ہیں، کشمیریوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی،پاکستان کشمیری عوام کے لئے پوری دنیا میں آواز اٹھاتا رہیگا، بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر اور فلسطین کی صورتحال پر دنیاخامو ش تماشائی بنی ہوئی ہے، وہ دن دور نہیں جب کشمیری اور فلسطینی عوام کو ان کے حقوق ملیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پچھلے دنوں ہونے والے واقعات بہتر طریقے سے حل ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک چلانے والوں نے اپنے جائز معاملات کے لئے ایک جمہوری اندازمیں اپنا احتجاج ریکارڈکرایا لیکن اس تحریک میں بعض ایسے شر پسند عناصر تھے جن کا مقصد تھا کہ کسی طریقے سے آزاد کشمیر میں توڑ پھوڑ، انسانی جانوں کاضیاع اور جلاؤ گھراؤ کیا جائے۔انہوں نے کہاکہ آزاد کشمیر کی مضبوط اور جاندار قوم اپنے مفاد کو بہتر طریقے سے جانتی ہے،پاکستان کے 25 کروڑ عوام کشمیریوں کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ او آئی سی کی کانفرنس میں بھی نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کشمیری عوام کے لئے بھرپور آوازاٹھائی اور جو اعلامیہ جاری ہوا اس میں کشمیر کا بھرپور طریقے سے ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے موقع پر پریس کانفرنس میں انہوں نے کشمیر کی بات بھرپور طریقے سے کی اور مسئلہ کشمیرپر سیرحاصل گفتگو ہوئی، یہ صرف زبانی باتیں نہیں ہیں،یہ دلوں کی بات ہے۔ انہوں نے کہاکہ کشمیریوں کی ہر فورم پر اخلاقی و سفارتی امداد جاری رکھیں گے۔ وزیراعظم نے کہاکہ آزاد کشمیر میں جو چند دن پہلے جو تحریک چلی اس میں بد قسمتی سے ایک پولیس اہلکار اور کچھ شہری جاں بحق ہوئے اور توڑ پھوڑ ہوئی اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہاکہ شہداکے اہل خانہ کو امدادی پیکج دیاجائیگا۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت نے آزاد کشمیر کے لئے 23 ارب روپے کا پیکج منظور کیا۔ 23 ارب روپے آزاد کشمیر حکومت کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو چکے ہیں،یہ کوئی احسان نہیں ہمارا فرض ہے۔ہماری رائے میں آزاد کشمیر میں چند روز قبل ناخوشگوار واقع میں شہید ہونے والے تین نوجوانوں اور ایک پولیس سب انسپیکٹر کی شہادت اور حالات کی سنگینی کے تناظر میں وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کا حالیہ دورہ مظفرآباد بلاشبہ اہمیت کا حامل ہی نہیں بلکہ انتہائی ضروری تھا۔ یہ بات بھی قابل ستائش ہے کہ حکومت کہ حکومت پاکستان نے 23ارب روپے کا جو خصوصی پیکج آزاد کشمیر کی عوام کے لئے منظور کیا تھا وہ رقم بھی آزاد کشمیر حکومت کے اکاونٹ میں منتقل ہوچکی ہے۔ بلاشبہ احتجاجی عوام تحریک کے دوران جو انسانی جانی نقصان ہوا اس کا ازالہ کسی صورت ممکن نہیں لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے وزیراعظم شہباز شریف کا اپنی کابینہ کے اہم اراکین کے ساتھ بروقت دورہ مظفرآباد اہمیت کا حامل ہے۔آزاد کشمیر میں زندگی معمول پر آنے سے کشمیر اور پاکستان دشمن عناصر کو کافی تکلیف ہوئی ہوگی لیکن الحمد للہ آزاد کشمیر کی عوام باشعور اور معاملہ فہم ہے۔ بھارت اور پاکستان دشن قوتیں ایسے حالات کو اپنے مکروہ عزائم کے لئے استعمال کرتے ہیں لیکن حالات بہتر ہونے اور معمول پر آنے سے دنیا کو یہ مثبت پیگام گیا کہ کشمیری اور پاکستانی عوام ایک ہیں اور کشمیر کے بغیر پاکستان نا مکمل ہے۔ اس موقع پروزیراعظم شہباز شریف کا یہ کہنا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر اور فلسطین کی صورتحال پر دنیاخامو ش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہماری رائے میں وزیراعظم شہباش شریف کا یہ کہنا بلا شبہ درست اور حقائق پر مبنی ہے اوریہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت عالمی قوتیں اپنے مفادات کی خاطر کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرہی ہیں۔ بلاشبہ کشمیر اور فلسطین دو ایسے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اگر ان علاقوں میں غیر مسلم آبادی کا تناسب زیادہ ہوتا تو امریکہ اور دیگر عالمی استعماری قوتیں ان علاقوں کی آزادی کے لئے فوری متحرک ہوجاتیں لیکن یہ عالمی طاقتوں کے دہرے معیار کی اعلیٰ مثال اور ان کی منافقانہ روش کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ بلا شبہ یہ صورتحال اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے وجود پر سوالیہ نشان ہے۔لیکن اس صورتحال کی ذمہ داری اسلامی ملکوں کی قیادت پر بھی ہے کہ وہ بھی اپنے مفادات کی خاطر مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے حوالے اپنا وہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہے جو بطور امت اور اسلامی ملک کے سربراہوں کے ان پر عائد تھی۔لیکن دیر آمد درست آمد اگر آج بھی اسلامی امت کشمیر اور فلسطین پر ایک مضبوط موقف اختیار کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا ان دونوں مسئلوں کے حل کی طرف فوری توجہ نہ دے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں