وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری 0

بلاشبہ حکومت بجلی چوری کے خلاف موثر اقدامات اٹھائے، لیکن بجلی چوری اور لائن لاسز کا سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کی روش ترک کی جائے، مہنگی بجلی کے خاتمے واسطے عوام کو آئی پی پیز کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے حکمت عملی وضع کی جائے تو بہترین کے امکانات روشن ہیں

بلاشبہ حکومت بجلی چوری کے خلاف موثر اقدامات اٹھائے، لیکن بجلی چوری اور لائن لاسز کا سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کی روش ترک کی جائے، مہنگی بجلی کے خاتمے واسطے عوام کو آئی پی پیز کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے حکمت عملی وضع کی جائے تو بہترین کے امکانات روشن ہیں

وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ بجلی چوری سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے، بجلی کی چوری کو روکنے کیلئے اقدامات کررہے ہیں۔اتوار کے روز وزیر مملکت علی پرویز ملک کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر توانائی سردار اویس لغاری کا کہنا تھا کہ ملک کو گھمبیر مسائل سے نکال کر بہتری کی طرف لے کر جائیں گے، ن لیگ نے پہلے بھی انقلابی اقدامات کر کے ملک کو اندھیروں سے نکالا، ن لیگ کی حکومت کے خاتمے سے ملک میں تنزلی آئی۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے پاکستان کو ہمیشہ کیلئے بجلی کی لوڈشیڈنگ سے آزاد کیا تھا، 2017 میں ملک بھر میں نیٹ میٹرنگ کا آغاز ہوا تھا، آج ملک میں ایک لاکھ کنکشنز نیٹ میٹرنگ پر موجود ہیں۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت نیٹ میٹرنگ پالیسی کا جائزہ لے گی ضرورت ہوئی تو اس میں نظرثانی کریں گے، جن نیٹ میٹرنگ کمپنیوں سے معاہدہ ہو چکا اس میں تبدیلی نہیں ہو گی۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت سولرائزیشن کے حق میں ہے، سولر کی قیمت کم ہونے سے انویسٹمنٹ ایک سال میں ریکور ہو رہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاور سیکٹر میں بہت سے مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کیلئے کوشاں ہیں، محکمے میں 28 سے 30 مسائل کی نشاندہی کی ہے، پاور سیکٹر میں اصلاحات سے متعلق وزیراعظم کو آگاہ کردیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امید ہے وزیراعلی خیبرپختونخوا بجلی چوری پربہترتجاویزدیں گے اورخیبرپختونخوا حکومت بھی پنجاب کی طرح بجلی چوری کے خلاف اقدامات کرے گی انہوں نے کہا کہ امید ہے خیبرپختونخوا حکومت تعاون کرے گی۔بلاشبہ بجلی چوری ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور کتنی ستم ظریفی اور نا انصافی ہے کہ اس بجلی چوری کی قیمت عام لوگ جو بجلی کا بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں کو بھرنا پڑتا ہے۔ہماری رائے میں وزیر توانائی اویس خان لغاری کا کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ پاور سیکٹر میں بہت سے مسائل ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان مسائل کا حل کس کے پاس ہے کیونکہ عوام کے پاس تو اس کا حل نہیں بلکہ یہ حکومت اور خاص طور پر محکمہ بجلی واپڈا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے کیا حکمت عملی اور اقدامات اٹھاتے ہیں۔ہماری رائے میں بجلی چور کسی طور بھی حکومت اور سرکاری مشینری سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوسکتا۔بلا شبہ حکومت بجلی چوری پر قابو پانے کے لئے اقدامات کررہی ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بجلی چوری اور لائن لاسز کا تما م بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔اسی طرح آئی ایم ایف کی ہدایات اور شرائط کی روشنی میں بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے اور 25کروڑ عوام پر ان مدات میں وصولیوں کے زریعے مالیا اکھٹا کیا جاتا ہے۔ہماری رائے میں عوام کو مشکل حالات سے نکالنے کے لئے ضروری ہوگا کہ اس ملک کے عوام کو جہاں بہت سی دیگر برائیوں سے نجات دلانا ضروری ہے وہاں اس عوام کوآئی پی پییز کے چنگل سے نجات دلائی جائے یا پھر ان کے ساتھ بجلی پیدوار کے حوالے سے از سر نو معاہدے کئے جائیں جس میں عوام اور ملک کے مفادات کو مقدم رکھا جائے تو بہتری کے امکانات ہوسکتے ہیں۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ سابقہ ادوار میں حکومتیں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے مفادات کو مکمل تحفظ فراہم کرتیں آئی ہیں ہیں لیکن اس حوالے سے عوام کے دھکوں کا مداوا کرنے کے لئے کوئیخاطر خواہ اقدامات نظر نہ آئے۔ہماری رائے میں حکومت بجلی چوری اور لئن لاسز کا رونا رونے کی بجائے اس کے تدارک اور حل کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے تاکہ بجلی چوری کی لعنت سے نہ صرف ملک کو نجات مل سکے بلکہ عوام کی بہتری بھی یقینی ہوسکے۔ بلا شبہ حکومت اور حکومتی ادارے اگر کسی بھی غیر قانونی حرکات کے خلاف کوئی ایکشن لینا چاہئے تو حکومت کے لئے مشکل نہیں لیکن اگر اسے صرف بیان بازی تک محدود رکھا جائے اور عملی اقدامات سے گریز کیا جائے تو اس کے کوئی مثبت اورخاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ اگر خیبر پختونخواہ کی حکومت اس حوالے سے کوئی تعاون نہیں کرتی اس کے لئے وفاق کے پاس کئی اور راستے ہیں جس سے یہ نقصان پورا کیا جاسکتا ہے لیکن جہاں تک دوسرے صوبوں کا تعلق ہے ان سے اگر تعاون حاصل ہوتا ہے تو کم از کم ان علاقوں سے بجلی چوری کی لعنت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ہماری رائے میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں اگر اس اہم قومی مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنانے کی بجائے اصول اور ضوابط کے تحت چلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ معمالات یکسو نہ ہوں۔بلاشبہ اس وقت ملک میں بجلی کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پرہیں، گیس اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں ہی عوام کی کمائی کا بڑا حصہ خرچ ہوجاتا ہے اوراس پر ہوشربا ء مہنگائی کا عفریت بے قابو ہو کر عوام کی چیخین نکال رہا ہے۔ یہ بجلی، گیس بلوں میں بے پناہ اضافے کا ہی شاخسانہ ہے کہ ملک میں مہنگائی نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں جو قابومیں آنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ بلاشبہ حکومت نے گزشتہ ہفتے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مناسب کمی کی ہے لیکن عوام اس سے زیادہ کمی کی امید رکھتے تھے، بحرحال پیٹرول کی قیمت میں 15روپے فی لیٹر کمی سے عوام کو کچھ ریلیف ضرور ملے گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت بجلی اور گیس کی قمیتوں میں جو بے پناہ اضافہ کر چکی ہے۔ کیا ان کی قیمتوں مین کمی کے حوالے نظر ثانی نہیں کی جاسکتی؟ کیونکہ اگر اس میں عوام کو ریلیف دیا جائے تو جہاں مہنگائی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی وہاں ملک کی معیشت میں بھی بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں کیونکہ ان اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث ہی اشیاء خردونوش اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہماری رائے میں وفاقی وزیر توانائی اویس خان لغاری بجلی چوری کے خاتمے کے لئے اقدامات ضرور اٹھائیں لیکن یہ بھی ضروری ہوگا کہ عوام کو مہنگی بجلی سے نجات دلانے کے لئے آئی پی پیز کے ساتھ از سر نو معاہدات کو یقینی بنانے کے لئے بھی کوئی حکمت عملی وضع کریں اورنئے معاہدوں میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی بجائے عوام کے مفادات کو ترجیح دی جاے تو یہ عوام پر احسان عظیم ہوگا۔ اسی طرح بجلی چوری اور لائن لاسز کا سارا بوجھ بھی عوام پر ڈالنے کی بجائے اگر دیگر زرائع استعمال کیے جائیں تو عوام پر اضافی بوجھ میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ ہماری رائے میں حکومت اس روش کو بھی ترک کردے کہ عالمی مالیاتی ادارے کی خواہش اور شرائط کے پیش نظر یوٹیلیٹی بلوں میں اضافہ کے زریعے عوام پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا جائے، بلاشبہ عوام کی قوت خرید اور مالی حیثیت اگر مستحکم ہوگی تو عوام ہر طرح کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں لیکن موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں عوام کسی طور بھی اضافی بوجھ اٹھانے کے متحمل نہیں ہوسکتے اور اسی کیفیت کے باعث ہی ملک کی معیشت بحران کا شکار ہے۔ ہماری رائے میں ضروری ہوگا کہ حکومت اپنے حالات اور عوامی مفادات کو پیش نظر رکھ ہی فیصلے کرنے پر فوکس کرئے گی اور بلاشبہ یہی پاکستان کی عوام کی بہتری اور ملکی مفاد میں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں