0

بلا شبہ روس اورچین پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کے طابع رکھنے کی ضرورت ہے

بلا شبہ روس اورچین پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کے طابع رکھنے کی ضرورت ہے

منگل کے روز آستانہ، قازقستان میں منعقد ہونے والے شنگہائی تعاون تنظیم ایس سی اوکونسل آف وزرائے خارجہ سی ایف ایم کے موقع پر نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی اپنے روسی ہم منصب وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات ہوئی۔نائب وزیراعظم نے پاکستان اور رشین فیڈریشن کے درمیان بڑھتے ہوئے دو طرفہ افہام و تفہیم اور تعاون اور حالیہ علاقائی اور عالمی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا، روس میں پرامن اور کامیاب انتخابی عمل پر اپنے روسی ہم منصب کو مبارکباد دی۔اسحاق ڈار نے پاکستان اور روسی تعلقات کی مثبت سمت پر اطمینان کا اظہار کیا، دونوں فریقین نے پاکستان روس دوطرفہ تعلقات کو مزید گہرا اور وسعت دینے کے لئے کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔دونوں رہنماں نے اس سال ماسکو میں بین الحکومتی کمیشن آئی جی سی کا نواں اجلاس منعقد کرنے پر بھی اتفاق کیا۔دریں اثناء کونسل آف وزرائے خارجہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ایس سی او ایک اہم علاقائی فورم ہے، ایس سی او کی وزرائے خارجہ کونسل کا قیام بہت اہم ہے، ایس سی او میں شامل ممالک کے ایک دوسرے سے تاریخی ثقافتی وسفارتی تعلقات ہیں، ایس سی او ممالک سے تعلقات کا فروغ پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہے، ایس سی او ممالک کے تعاون سے تمام ممالک ترقی کی منازل طے کریں گے۔ ہماری رائے میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کی اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات موجودہ حالات کے تناظر اور روس سے مستقبل میں تعاون اور تعلقات میں بہتری لانے کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے۔ بلاشبہ پاکستان کو اپنے خارجی تعلقات میں وسعت دینے اور امریکہ کی جی حضوری اور ڈو مور کے چنگل سے نکل کر اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ملکوں کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ چین اور روس اس وقت دو عالمی قوتیں ہیں اور پاکستان کے مفادات امریکہ کی نسبت زیادہ تر اپنے اس خطے میں روس اور چین کے ساتھ ہی وابستہ ہونے چایئے۔ ملکوں کی برادری میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا یہ بلاشبہ مفادات کی دنیا ہے، لہذا پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی اپنے ملک کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئیاستوار کرنے ہونگے ناکہ کسی ملک یا ملکوں کے گروہ کے طابع رکھنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ امریکہ دوستی میں گزشتہ76 سال کاریکارڈ ہمارے سامنے ہے کہ پاکستان نے امریکہ کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جبکہ اس کے بدلے میں امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو وہ اہمیت اور تعاون نہ دیا جس کی پاکستان کو ضرورت تھی حتی کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی امریکہ نے واضع طوربھارت نواز کردار ادا کرتے ہوئے اور بھارت کو خوش کرنے کے لئے مسئلہ کشمیر کے حل کی کوششوں کو سبوتاژ کیا۔ چین دشمنی میں امریکہ نے پاکستان دشمنی اور بھارت دوستی کا مکمل ثبوت دیا اور پاکستان پر ہمیشہ مختلف طریقوں سے عالمی دباؤ جاری رکھا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے امریکہ نے بھارت کے زریعے پاکستان میں دہشت گردی کی لعنت کو فروغ دیا جس کے پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے، بلاشبہ آج پاکستان جس مالی بحران اور معاشی مشکلات سے دوچار ہے ان حالات کی ذمہ داری امریکہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ چین پاکستان کا ایک اچھا اور مشکل وقت کا آزمودہ دوست ملک ہے جبکہ روس کے ساتھ مسئلہ افغانستان کی وجہ سے پاکستان کے حالات کشیدہ ہی رہے ہیں لیکن اب عالمی منظرنامے پر صورتحال یکسر تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے روس پاکستان کو اپنے قریب کرنا چاہتا ہے جبکہ چین تو پہلے ہی پاکستان کے بہت قریب ہے۔ ہماری رائے میں پاکستان اس وقت ایک ایسے موڑ پر ہے جہاں اسے دنیا میں تعلقات کی نسبت تمام ملکوں سے اچھے مراسم استوار کرنے کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کسی ملک کی خواہشات کو قطعی طور نظر انداز کرتے ہوئے صرف اور صرف اپنے مفادات کو ہی اہمیت اور فوقیت دینے کی ضرورت ہے اسی میں پاکستان کی بقاء اور ترقی کا راز مضمر ہے۔ ماضی میں روس نے بھی بھارت نوازی میں حد کردی تھی۔ مسئلہ کشمیر جب بھی اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل میں پیش ہوا روس نے ہمیشہ قراداد کو ویٹو کر دیا اب وہی کام امریکہ کر رہا ہے۔ لیکن روس اور چین کی صورت میں پاکستان کو اس خطے میں دو اہم عالمی قوتوں کی دوستی اور تعلق سے بہت سے معاشی اور کاروباری مفادات میسر آئیں گئے اور پاکستان کی اہمیت کے پیش نظر دونوں ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دینگے۔ ایران بھی اس خطے کا اہم ملک ہے امریکہ کی کرم نوازی اور اسلام دشمن پالیسیوں کے سبب ایران، پاکستان اور دیگر کئی اسلامی ممالک مشکل حالات سے دوچار ہیں۔ہماری رائے میں نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈارکا کہنا اہمیت کا حامل اور ایک پالیسی بیان ہے کہ ایس سی او ایک اہم علاقائی فورم ہے، اسکی وزرائے خارجہ کونسل کا قیام بہت اہم ہ اور اس میں شامل ممالک کے ایک دوسرے سے تاریخی ثقافتی وسفارتی تعلقات ہیں۔ یاد رہے کہ ایس سی او میں پاکستان، روس، چین، بھارت قازقستان،کرغستان،تاجکستان اور ازبکستان سمیت 8 مستقل رکن ملک ہیں جبکہ ایران، بیلا روس، افغانستان اور منگولیا بطور آبزرور رکن ہیں۔ بلاشبہ اس فورم کے زریعے پاکستان اپنے خطے کے ممالک سے بہتر معاشی اور اقتصادی تعلقات اور تعاون کو فروغ دے سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں