وزیراعلیٰ مریم نوازشریف 0

حکومت پنجاب کا کسان کارڈ اجراء ایک فصل کے لئے کسان کو ڈیرھ لاکھ روپے کا بلاسود اور آسان قرض فراہم کرنے کے لئے سالانہ 300 ارب روپے مختص کرنا قابل ستائش عمل ہے، اس سے بلاشبہ زرعی پیداور میں خاطر خوہ اضافہ ممکن ہوگا

حکومت پنجاب کا کسان کارڈ اجراء ایک فصل کے لئے کسان کو ڈیرھ لاکھ روپے کا بلاسود اور آسان قرض فراہم کرنے کے لئے سالانہ 300 ارب روپے مختص کرنا قابل ستائش عمل ہے، اس سے بلاشبہ زرعی پیداور میں خاطر خوہ اضافہ ممکن ہوگا

حکومت پنجاب کی طرف سے کسان کارڈ کا اجراء بلاشبہ ایک مثبت پیش رفت ہیاور اس حوالے سے وزیراعلی پنجاب مریم نواز کا یہ اقدام قابل ساتئش ہے کہ صوبہ بھر میں کاشتکاروں کیلئے کسان کارڈ کی رجسٹریشن کا آغاز کر دیا گیاہے۔اس حوالے سے اپنے ایک پیغام میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز کا کہنا تھا کہ کسان کارڈ کی رجسٹریشن کیلئے درخواست گزار اپنے موبائل سے سپیس، پی کے سی (Space PKC) اور شناختی کارڈ نمبر لکھ کر 8070 پر میسج بھیجیں۔مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ کاشتکاروں کی خوشحالی اور پیداوار میں اضافہ ہمارا عزم ہے، ان کہنا تھا کہ کسانوں کو سالانہ 300 ارب روپے کے پیداواری قرضے دیئے جائیں گے،اورہر کسان ایک فصل کیلئے ڈیڑھ لاکھ روپے تک بلا سود آسان قرض حاصل کر سکے گا، کسان کارڈ سے کھاد، بیج اور دیگر زرعی اجناس خرید سکے گا۔ان کا کہنا تھا کہ 5 لاکھ کاشتکارکسان کارڈ سے مستفید ہوں گے، اورساڑھے 12 ایکڑ تک اراضی کی ملکیت رکھنے والے کسان کارڈ رجسٹریشن کے اہل ہوں گے، کسان کارڈ کیلئے زمین کا اراضی ریکارڈ سنٹر میں رجسٹرڈ ہونا اور کاشتکار کے اپنے شناختی کارڈ نمبر پر موبائل سم کا رجسٹرڈ ہونا لازم ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ کاشتکار کے شناختی کارڈ کی نادرا ریکارڈ سے تصدیق کی جائے گی، کاشتکار کسی مالیاتی ادارے کا نادہندہ نہ ہو، کاشتکار بلاسود قرضے کی آسان اقساط 6 ماہ میں واپس کرے گا، قرض کی ادائیگی کے بعد کاشتکار اگلی فصل کیلئے دوبارہ قرض حاصل کرنے کا اہل ہوگا۔ہماری رائے میں پنجاب حکومت کا کاشکاروں کی بہتری اور صوبے میں پیداوری صلاحیت میں اضافے کے لئے کسان کارڈ کا اجراء ایک مثبت اور اچھی پیشرفت ہے۔بلاشبہ اس وقت تک کسی بھی ملک یا علاقے کی زرعی پیداور میں اضافہ یا بہتری ممکن نہیں جب تک کہ وہاں کے کاشتکار کی حالت کو بدلنے کے لئے موثر اور ضروری اقدامات نہ کئے جائیں۔ وطن عزیز پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے لیکن نہ جانے کیوں اس اہم شعبے اور اس شعبے سے منسلک افراد یعنی کاشکاروں اور کسانوں کو نظر انداز کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں زرعی پیداور اور زرعی صلاحیت میں بے پناہ کمی واقع ہوگئی اور حکومتوں کی غفلت اور لاپروائی اور اس اہم شعبے سے عدم توجیح کا ہی شاخسانہ ہے کہ پاکستان جس کی 80 فیصد آبادی آج بھی زراعت سے منسلک ہے اور ایسا ملک جو وافر مقدار میں زرعی اجناس پیدا کرتا تھا اور جو اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد دیگر ملکوں میں برآمد کیں جاتیں تھیں وہ زرعی اجناس اب پاکستان میں دوسرے ملکوں سے درآمد کیں جاتی ہیں،نتیجہ میں ایسی درآمدات پر بھی خطیر زر مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور حالات کی ستم ظریفی کہ یہ اشیاء عام صارفین کو مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہیں۔ بلاشبہ اگر حکومت اپنی ذمہ داری کا ادارک کرتے ہوئے اپنے ملک کے کسان کو ہر ممکن سہولت اور آسانیاں فراہم کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ملک کا کاشتکار اور کسان خوشحال نہ ہو اور ملک کی زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو۔ ہماری رائے میں کسان کی خوشحالی اور آسودگی میں ہی ملک کے زرعی شعبے کی ترقی اورخوشحالی کا راز مضمر ہے۔ یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل اور مثبت پیش رفت ہے کہ پنجاب حکومت وزیر اعلیٰ مریم نواز کی ہدایت کی روشنی میں کسانوں کے لئے سالانہ 300 ارب روپے کے پیداواری قرضے فراہم کرنے کے لئے فنڈز مہیا کر رہی ہے،اور اس مد میں ہر کسان ایک فصل کیلئے ڈیڑھ لاکھ روپے تک بلا سود آسان قرض حاصل کر سکے گا۔ بلاشبہ یہ ایک قابل ستائش اور اہم اقدام ہے کیونکہ غریب کسان مالی کمی اور غربت کے باعث فصل کاشت کرنے سے عاجز رہتا ہے، لیکن جب اسے بروقت پیسہ اور سہولت میسر ہوگی وہ بروقت کاشت کو یقینی بنائے گا جوپیدوار صلاحیت میں اضافہ کا باعث بنے گی۔ لیکن اس کے ضروری ہوگا کہ محکمہ زراعت میں کالی بھیڑوں کی بھی نشاندہی ہونی چایئے جن کی وجہ سے اکثر حکومتوں کے اچھے اور موثر پروگرام کرپشن کی نظر ہوجاتے ہیں۔ ہماری رائے میں ویزیر اعلیٰ مریم نواز شریف بذات خود اس اہم نوعیت کے منصوبے کی نگرانی کریں تاکہ 300ارب کی یہ خطیر رقم جو غریب کسانوں کی معاشی بہتری،زراعت کی ترقی اور پیداور میں اضافے کی غرض سے مہیا کی جاررہی ہے اس کا مصرف درست انداز میں ممکن ہو اور اس کے دورس نتائج برآمد ہونے سے جہاں ملک میں زرعی اجناس مقامی سطح پر پیدا ہونے سے صارفین کو سستے داموں اور وافر مقدار میں مہیا ہوگئی وہاں اضافی فصل دیگر ملکوں میں برآمد کی کی جاسکے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں